علمائے حق اور سوء کا فرق

870

علمائے حق کا بنیادی ماخذ نصوص (قرآن و سنت) ہے جب کہ علمائے سوء کا بنیادی ماخذ اپنی عقل وفہم ہے۔ علمائے حق ہر معاملہ میں قرآن و سنت کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں، علمائے سوء اپنی بنائی ہوئی رائے، اور اپنے کیے گئے فیصلوں کو قرآن و سنت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمائے حق قرآن کی وہی تعبیر کرتے ہیں جو سنت سے ثابت ہیں، اور معنی اور عقلی طور اس کی جتنی گنجائش ہے۔ علمائے سوء قرآن کی تعبیر و تشریح میں بے لگام ہوتے ہیں وہ اس کی من پسند تعبیر کرتے ہیں۔ علمائے حق احادیث کے تمام ذخیرہ کو سامنے رکھتے ہیں۔ جب کہ علمائے سوء صرف ان احادیث کو مانتے ہیں جن سے وہ اپنی رائے کی درستی پر دلائل دے سکیں۔ علمائے سوء کی بڑی تعداد کلی یاجزوی منکرین حدیث ہوتی ہے۔
علمائے حق کے نزدیک نظام اسلام وہ ہے جو کتاب و سنت اور خلافت راشدہ سے ثابت ہے، علمائے سوء ہر نظام باطل، دین ملوک، جدید جاہلانہ تصورات، اور انسانی نظام ہائے حیات کو عین اسلامی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے موجودہ دور میں سوشلزم، کمیونزم، کیپٹلزم، لبرل ڈیموکریسی، نیشنلزم، سیکولرزم، ماڈرنزم، ہیومینزم، فیمینزم اور سائینٹزم، وغیرہ کی اسلامی توجیحات۔
علمائے حق حکمرانوں سے تعاونو علی البر والتقویٰ ولا تعاونو علی الاثم والعدوان (نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں عدم تعاون) کرتے ہیں، جب کہ علمائے سوء حکمرانوں کے ہر کام میں ان سے تعاون کرتے ہیں۔ ان کا مقصد حکمراں، ریاست، رائج اور غالب تہذیب کے ایوانوں میں اپنے کو سرخرو اور معزز بنانا ہوتا ہے۔ علمائے حق عزیمت کا راستہ چنتے ہیں جب کہ علمائے سوء ہمیشہ رخصت کی گنجائش نکالتے ہیں۔ علمائے حق مشتبہ چیزوں کو بھی اگل دیتے ہیں جب کی علمائے سوء مشتبہ چیزوں کو آرام سے نگل جاتے ہیں۔ علمائے سوء اپنی سہولت کے لیے دین و شریعت میں حیلہ سازی سے کام لیتے ہیں۔ ’’حیلہ‘‘ ان کا من پسند مضمون ہوتا ہے۔
مسلم تاریخ میںعجیب و غریب حیلوں کا حوالہ ملتا ہے۔ ایک شیخ نے یہ حیلہ نکالا کہ ہر سال کے آخر میں اپنا تمام خزانہ بیوی کے نام ہبہ کر دیتے تھے اور وہ ایک سال پورا ہونے سے پہلے ان کے نام بخش دیتی۔ اس طرح حول کامل (ایک سال تک مال کا رہنا) کسی پر نہ گزرتا کہ ادائے زکوٰۃ کی شرط ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ’’ تذکرہ‘‘ میں حیلے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اگرچہ ٹھیک ٹھیک نہیں کہا جا سکتا کہ احبار یہود اور اصحاب السبت کے بعد امت اسلامیہ میں سب سے پہلے کن ’’یہود ہذہ الامہ‘‘ نے ان حیلوں کی بنیاد ڈالی اور شریعت الٰہی کو نفس و شیطان کا بازیچہ لہو و لعب بنایا، مگر یہ معلوم ہے کہ دوسری صدی کے اوائل ہی میں بعض فقہائے دنیا و عبید السلاطین اور متفقہین بالظن والرائے نے حیلہ تراشیاں شروع کر دی تھیں، اور تیسری صدی میں اس امت کے صدوقیوں اور فریسیوں نے کتاب الحِیَل کو بھی منجملہ ابواب فقہ کے قراردے دیا تھا۔ ا س کا پتا ان اقوال سے پتا چلتا ہے جو نام نہاد حیل و احتیال شرعیہ کی نسبت ائمہ اسلام کے منقول ہیں اور جن کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے بعض فتاویٰ میں جمع کیا ہے۔ عبداللہ بن مبارک ؓ نے ایک حیلہ کا سن کر کہا ’’اسلام میں لوگوں نے حیلے پیدا کرنے کی بدعت رائج کی ہے، سو جو شخص ان پر فتویٰ دے، وہ کافر ہے۔ شریک بن عبداللہ قاضی کوفہ سے کتاب الحیل کا ذکر کیا گیا، تو انہوں نے کہا حیلے نکال کر احکام شرعیہ کی تعمیل سے بچنا خدا کو دھوکہ دینا ہے۔ حفص بن غیاث نے کہا ’’کتاب الحیل‘‘ پر لکھ دو کہ ’’کتاب الفجور‘‘ ہے۔ یزید بن ہارون نے کہا ’’حیلہ تراشوں نے یہودیوں کو بھی مات کر دیا‘‘۔ ایوب سختیانی نے کہا ’’یہ لوگ خدا کو اس طرح دھوکہ دینا چاہتے ہیں، جیسے بچوں کو فریب دے کر بہلاتے ہیں، خدا نے حکم دیا کہ ہر مال دار زکوٰۃ دے تو سال کے آخر میں تمام مال بیوی کے نام ہبہ کر دیا کہ خدا دھوکے میں آ کر ہم کو مفلس و نادار سمجھ لے گا‘‘۔
نو گیارہ کے بعد امریکا کے تھینک ٹینکز نے جس نئے’’قابل قبول‘‘ اور ’’ماڈریٹ‘‘ اسلام کی ضرورت کو پیدا کیا ہے اور اس کے لیے جن مسلم دانشوراں سے مشورہ لیا گیا ہے انہوں نے عرب اور برصغیر پاک و ہند سے ایسے علمائے سوء کی نشاندہی کی ہے، ان کی ایک بڑی تعداد تو شمالی امریکا میں پہلے سے آباد ہے لیکن نئی ضرورتوں کے تحت عرب، اور ہند وپاک سے کئی متجدد علماء کی خدمت حاصل کی گئی ہے۔ انہیں اب امریکا اور کینیڈا میں لاکر بسایا جا رہا ہے، ان کو اکیڈمیاں بنا کر دی جا رہی ہے۔ یہ لوگ ’’کتاب الحیل‘‘ کے جدید شارح ہیں۔ ان کے آرا اور ان کے فتووں سے کس طرح یہاں کی ملی روحانی زندگی تباہ اور پراگندہ ہو رہی ہے، اس کے بارہ میں پھر کبھی۔