بدترین جمہوریت! ۔

371

ملک کے سیاست دانوں کی اکثریت بلکہ شاید سب ہی کا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے‘‘۔ یہ قول کسی مغربی مفکر کا ہے جس نے یہ بات عوام کی حکمرانی قائم رہنے کے لیے کہی ہوگی، وہ حکمرانی جو لوگوں کے مشورے اور تائید سے قائم کی جائے۔ آئین کے مطابق پاکستان کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھا گیا ہے۔ لیکن اپنے عزیز پاکستان میں سوائے جماعت اسلامی کے، کسی سیاسی جماعت کے اپنے تنظیمی نظام میں جمہوریت نظر نہیں آتی، یہ اور بات ہے کہ تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں جمہوریت پسندی کا دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں۔ بعض سیاسی جماعتیں تو اب مورثی سیاست کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، یہ جماعتیں جمہوری عمل کے دعوے کے ساتھ اپنے سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی پارٹی کے برسوں سے موجود رہنماؤں کے سوا کسی اور کو پارٹی کے بااختیار عہدوں پر منتخب کرنا تو کجا اس مقصد کے لیے نام بھی تجویز کرنے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ بلکہ شاید مذکورہ جماعتوں سے وابستہ سینئر قیادت بھی پارٹیوں کے مرکزی رہنماؤں کی مرضی و منشاء کے بغیر کسی سیاسی معاملے پر اپنی رائے کے اظہار کا اختیارات بھی نہیں رکھتے۔ کڑوا سچ تو یہ بھی ہے
کہ ملک کی پارٹیوں کے سربراہان اپنی جماعتوں کا نظام ایک سخت آمر کی طرح چلایا کرتے ہیں۔ اس غیر جمہوری طرز عمل کی وجہ بڑے سیاستدانوں کی غیر معمولی طاقت ہے طاقت نے انہیں غیر معمولی طور پر مغرور بنا دیا ہے۔ یہی غرور اور تکبر دوسرے درجے کے سیاستدانوں کی جانب سے برداشت کرنے اور اس کی مزاحمت نہ کرنے کی وجہ سے سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی فطری بات ہے۔ مگر ایسے غیر جمہوری، غیر اصولی اور غیر اخلاقی رویوں کی وجہ سے ملک کا سیاسی ہی نہیں بلکہ انتظامی نظام بھی روز بروز تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔ ہر جگہ بے قاعدگی، بدانتظامی اور بدعنوانی مل رہی ہے۔
جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت بلکہ اخلاقیات تک نہ ہو تو بآسانی آمرانہ ذہن کے افراد اپنی شاطرانہ چالوں سے جگہ بنا لیتے ہیں۔ جس کی مثال ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ جمہوریت پسندی کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں کی تاریخ بھی آمروں کی چاپلوسی اور خوشامد پسندی سے بھر پور ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب خان کے قریب تھے، میاں محمد نواز شریف بیٹے بنے جنرل ضیاء الحق کے۔ دونوں نے جرنیلوں کے کاندھوں پر چڑھ کر سیاسی بازی گری سیکھیں اور اپنا شمار جمہوریت پرست سیاست دانوں میں کرایا۔ بعد میں بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کو بھرے جلسوں میں واضح جملوں کے ساتھ اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی کہ ’’میں جنرل پرویز مشرف کو کہتی ہوں کہ اقتدار سنبھال لیں ورنہ شیر تو سارا آٹا کھا جائے گا‘‘۔
نتیجے میں جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہو کر مسلم لیگ نواز کی جمہوری حکومت ختم کر دیتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ بے نظیر بھٹو کے مطالبے کے فوری بعد پرویز مشرف کو اقتدار کا موقع نہیں ملا بلکہ میاں محمد نواز شریف کی اپنی آمرانہ سوچ کی وجہ سے ہونے والی اغلاط کے باعث اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے دو سال بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اقتدار میں ایک سے زائد بار آنے کے باوجود غلطیاں نادانستہ طور کیسے ہوسکتی ہے؟ شواہد بتاتے ہیں کہ وہ غلطیاں نہیں تھیں بلکہ بدعنوانیاں اور بے قاعدگیاں تھیں۔ بہرحال ان دنوں ملک کی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومتوں کی سیریز کی تیسری حکومت چل رہی ہے۔ کپتان عمران خان کی اس پہلی وفاقی حکومت پر ماضی کے تجربہ کار حکمرانوں نے ’’سلیکٹڈ‘‘ حکومت کا الزام لگایا ہے۔ لیکن یہ بات واضح نہیں کی جاتی کہ حکومت کن کی سلیکٹ کردہ ہے یا اس کے سلیکٹر کون لوگ ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت سلیکٹڈ ہو، نان سلیکٹڈ یا منتخب اسے قوم کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ بہرحال یہ پرامن اور بظاہر شفاف انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی ہے۔ اس لیے اس حکومت کو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پینا اور برداشت کرنا پڑے گا۔ اس حکومت کے وجود سے ایک تجربہ عوام کو بھی ہورہا اور انہیں بھی جنہیں سیاست دان ’’خلائی مخلوق‘‘ کہا کرتے ہیں۔ راقم تو صرف یہی سوچ رہا ہے کہ یہ حکومت سلیکٹڈ ہے یا نان سلیکٹڈ ہے تو جمہوری حکومت مگر کیا واقعی ’’بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے؟‘‘ اگر یہ سچ ہے تو کیا اس جمہوری حکومت سے بدترین حکومت بھی کوئی اور آسکتی ہے؟