دادا گیری اور سینہ زوری

311

مہاجرین کا مسئلہ عموماً جنگوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ کبھی روزگار اور کبھی سیاسی پناہ کی تلاش میں بھی لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دربدر ہوتے ہیں۔
پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے سربراہ نے عالمی برادری پر زور دیا کیا تمام ممالک خصوصاً یورپی ممالک مہاجرین کی آبادکاری کو ممکن بنائیں، صرف شامی مہاجرین ہی لاکھوں کی تعداد میں دربدر ہیں، یورپی سرحدوں پر انہیں بزور طاقت روکا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے کے کمشنر نے کہا ہے کہ مہاجرین کو منظم طریقے سے بزور یورپ سے دور رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کبھی تارکین وطن کی کشتیوں کو واپس سمندر کی طرف موڑ دیا جاتا ہے یا سب کو گرفتار کرکے انہیں واپس کردیا جاتا ہے اور زبردستی ہمسایہ ممالک کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ مہاجرین کے لیے یورپ اور دیگر ممالک پر زور ڈال رہا ہے لیکن کیا وہ اُن وجوہات کی طرف توجہ دے رہا ہے جن کی وجہ سے ملکوں کے ملک تباہی کا شکار ہو کر برباد ہوئے۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کے لوگ اپنے ملک کو چھوڑ کر در بدر ہوئے صحرائی راستوں میدانوں اور سمندروں کے ذریعے انتہائی تکلیف دہ راستوں سے دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کی۔ کتنے ہی لوگ راستوں ہی میں موت کا شکار ہوئے پھر اگر کسی ملک کی طرف پہنچے تو وہاں غیر انسانی طرز عمل سے انہیں جنگلوں اور کھلے میدانوں میں رہنے کی طرف ہانک دیا گیا۔ خاص طور سے یورپی سرحدوں پر انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔
پچھلی پانچ دہائیوں سے دنیا میں جنگ و جدل کا سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ دنیا کی تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ریاستوں نے شروع کیا ہوا ہے۔ دو بڑی طاقتیں امریکا اور روس دنیا کو پرامن اور پرسکون بنانے یا بنی رہنے دینے پر تیار نہیں ہیں وہ اور ان کے حالی موالی طاقت کا استعمال کرکے اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مسلسل سرگرم ہیں۔ چلیں یہ دنیا کا دستور کہہ لیں یا فطرت انسانی کہ وہ ہل من مزید کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن طاقت کے حصول کے لیے دنیا کے ملکوں کو تباہ و برباد کرنا لاکھوں لوگوں کو قتل، معذور اور مہاجر بننے پر مجبور کرنا ایک انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔ دادا گیری کے لیے اپنی طاقت استعمال کرنا ملکوں کے سرمائے، معدنیات اور تیل کے خزانوں پر قبضہ کرنا اپنی حدود میں اضافہ کرنا، دونوں بڑی طاقتوں کے مقاصد ہیں۔ ان مقاصد کے لیے یہ دنیا میں ظلم و زیادتی کو نہ صرف ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتی ہے بلکہ انہیں بڑھاوا دیتی ہے۔
افغانستان، عراق، شام، لبنان، یمن اور لیبیا میں یہ جنگوں کے خالق ہیں۔ اس سے پہلے ویت نام میں لاکھوں انسانوں کو قتل کرچکے ہیں۔ جاپان میں ایٹم بم گرا کر انسانوں کو بھسم کرچکے ہیں۔ آج کی ان جنگوں کا کنٹرول بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ کبھی ایک اور کبھی دوسری ریاست جنگ کا الائو بھڑکاتی ہے اور دوسری اس کے لیے حتیٰ الامکان ایندھن کا ا نتظام کرتی ہے۔ شام کی تباہی میں بھی دونوں بڑی طاقتیں ذمے دار ہیں، ایک طرف امریکا اور دوسری طرف روس اور میدان جنگ ملک شام ہے۔ جہاں چار لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ پندرہ لاکھ مستقل معذوری کا شکار ہوئے ہیں، چھیالیس ہزار لوگ وہ ہیں جو اپنے کسی عضو سے محروم ہوئے ہیں۔ اکسٹھ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار 2018ء میں انسانی حقوق کی تنظیم نے جاری کیے تھے۔ شام کے اندر اس وقت شدید سردی ہے اور وہاں کی خیمہ بستیاں بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال سے دوچار ہیں۔ ادلب میں روسی اور اسدی فوج کی بمباری کے بعد دربدر ہونے والے شامیوں کی عارضی قیام گاہیں پھٹے پرانے خیمے ہیں۔ بارش اور شدید برف باری میں معصوم بچوں کے ساتھ شامی اپنے ہی ملک میں ان خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کیا اقوام متحدہ اس کے لیے دونوں بڑی طاقتوں کا محاسبہ کرسکتی ہے؟ کیا وہ امریکا اور روس پر جنگ جرائم کے مقدمات چلا سکتی ہے؟ پھر شقاوت کی انتہا ہے کہ وہ مہاجر بچے جو ان جنگوں کے باعث اپنے والدین سے محروم ہوگئے تھے قافلوں کی صورت میں مہاجرین کے ساتھ یورپی اور دیگر ممالک میں پہنچے آج وہاں کے کیمپوں میں بے شمار ایسے بچے موجود ہیں وہاں کی حکومتیں انہیں اپنے ملک سے بے دخل کرنا چاہتی ہیں۔ یورپی عدالت انصاف میں ایک پندرہ سالہ بچے نے اس کے خلاف اپیل دائر کی تو فیصلہ میں عدالت نے یورپی ریاستوں کو ہدایت کی کہ بچوں کو بے دخل نہ کیا جائے۔ لیکن کیا یہ عدالتیں بچوں کو والدین گھر اور وطن سے محروم کردینے والے عناصر سے سوال کرنے اور انہیں سزا دینے کا فیصلہ کرسکیں گی۔ چاہے علامتی ہی سہی؟۔ دنیا کے دادا گیروں کی دادا گیری اور سینہ زوری پر سوال کرنے اور انہیں لگام ڈالنے کے لیے اقوام متحدہ تیار نہیں تو مسلم اور دیگر مظلوم ممالک کو اگلا نشانہ بننے سے پہلے اپنی اقوام متحدہ اور عالمی عدالت کی بنیاد ڈال ہی لینی چاہیے۔