آستینیں

255

وہ دور قصہ ٔ پارینہ ہوچکا جب کسی ملک کی ترقی کا اندازہ ان امور سے لگایا جاتا تھا کہ وہاں سیمنٹ کے کتنے کارخانے ہیں، تیار یا استعمال ہونے والے گندھک کے تیزاب کی مقدار کتنی ہے، سالانہ پیداوار کیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں۔ آج کل تبدیلی کا دور دورہ ہے، ہر طرف مغربیت کا زور ہے۔ بول چال، انداز، ٹیکنالوجی، طریقہ ٔ علاج، تعلیم و تربیت، حرب و طرب اور ملبوسات و ملفوفات اور یہاں تک کہ سماجیات و ازدواجیات سبھی کچھ انگریزی ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے ترقی کے پیمانے بھی بدل چکے ہیں۔ اب کسی ملک اور خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک کے بارے میں اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ وہاں کتنی ترقی ہوئی ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ وہاں میراتھن کے سالانہ انعقاد کی تعداد کیا ہے؟ نجی ٹی وی چینل کس حد تک ’’نجی معاملات‘‘ کو ’’انتہائی نجی انداز‘‘ میں منظر عام پر لا رہے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے تربیت، تعلیم و تدریس کے مخلوط اداروں کی تعداد کا تناسب کیا ہے۔ ملک میں ایسی چہار دیواریوں کی تعداد کتنی ہے جہاں آدھی رات کے بعد تک سرگرمیاں جاری رکھی جاتی ہیں۔ مختلف شہروں میں ہونے والے فیشن شوز کی یومیہ تعداد کیا ہے۔ ہر روز کتنے نوجوان جوڑے ازدواجی بندھن میں بندھنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور شادی جیسی پابندی سے ’’پیچھا چھڑانے‘‘ کے لیے خلع کی خواہش مند کتنی ہیں۔ انسانی حواس کو باختہ کرنے والا مشروب تیار کرنے والے کارخانوں اور اسے استعمال کرنے والوں کی کل تعداد کتنی ہے۔ رات گئے موبائل فونز، انٹرنیٹ اور ٹی وی کا استعمال کرنے والوںکی کیا تعداد ہے۔ اس کے علاوہ ترقی کا ایک اہم پیمانہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ملک میں اپنے محرم کی اجازت یا بغیر اجازت سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں چلتے پھرتے ’’نظر‘‘ آنے والی اور ’’سمجھ میں نہ آنے والی‘‘ ہستیوں کی تعداد کیا ہے؟
مذکورہ پیمانے سے اگر ملکی ترقی کا اندازہ لگایا جائے تو ہم بصد ’’افتخار‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا پاکستان تیز تر ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ایک دور وہ تھا جب پردیس میں رہنے والے تارکین، تنہائی سے پیچھا چھڑانے کے لیے ٹی وی چلا کر بیٹھ جاتے تھے۔ اس وقت ہمارے وطن نے اتنی ’’ترقی‘‘ نہیں کی تھی چنانچہ سیٹلائٹ پر صرف مغربی چینل نظر آتے تھے جنہیں دیکھ کر ہم جیسے لوگ توبہ توبہ کرتے تھے۔ آج ہمارا وطن بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو ہمارے وطن کے ٹی وی چینل اتنے موثر ہو چکے ہیں کہ وہ تنہائی کو محفل میں بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایک حیرت یہ ہے کہ وطن کے ان نجی چینلوں کو دیکھ کرہمارا سرنجانے اتنا کیوں جھک جاتا ہے کہ ٹی وی پر نظر جمائے رکھنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
شاید اکثرلوگوں اور خصوصاً نوجوانوں کو یہ یاد نہیں ہوگا کہ ماضی کے مامون اور ’’کم ترقی یافتہ‘‘دور میں ہمارے ہاں ٹی وی پر نظر آنے والی اداکاراؤں یا میزبانوں کے گلے میں لباس سے ملتے جلتے رنگ کے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا تھا جس کی لمبائی دو میٹر کے برابر ہوتی تھی۔ اسے عرف عام میں ’’دوپٹا‘‘ کہا جاتا تھا پھر بتدریج ’’ترقی‘‘ ہوئی اور یہ ’’دوپٹا‘‘ صرف ’’پٹا‘‘ ہو کر رہ گیا۔ پھر مزید ترقی ہوئی توخواتین نے نہ صرف مردوں کے شانہ بشانہ چلنا شروع کردیا بلکہ انہوں نے اپنے وہ حقوق بھی ’’چھیننا‘‘ شروع کر دیے جو ہمارے معاشرے میں مردوں نے کئی دہائیوں تک ’’چور جیبوں‘‘ میں چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔ یوں ’’بیچارے مرد‘‘ خواتین کی لوٹ مار کا ہدف بننے لگے۔ جدت پسندی کی دلدادہ اصناف نازک نے اپنے گلے میں پڑے ’’پٹے‘‘ کو مردوں کی ’’غلامی‘‘ کی علامت قرار دیتے ہوئے اتار پھینکا۔ تدریجی ’’ترقی‘‘ کا سفر اب بھی جاری ہے۔ ہمارے ان چینلوں پر نظر آنے والی اکثرخواتین نے ’’پٹے‘‘ کے بعد ’’دو آستینوں‘‘ سے بھی جان چھڑا لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آستینوں سے بے نیازی دراصل’ ’وفاشعاری‘‘ کی علامت ہے۔ آستینوں میں چونکہ سانپ پالے جا سکتے ہیں اس لیے ان کے باعث ’’بے وفائی‘‘ کے شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے آستینوںکو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا ہے۔ کیا خوب ’’جواز‘‘ ہے؟
ہمارے ایک ’’دانشور‘‘ دوست نے اس جواز پر ہماری عقل سے ماورا تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے اور مغربی ملکوں کے نجی ٹی وی چینلوں میں ’’ترقی‘‘ کے لحاظ سے صرف 2اور 4کا فرق ہے۔ ہمارے ہاں کی اکثر اداکاراؤں اور میزبانوں کی دو آستینیں نہیں ہوتیں اور اْن کے ہاں ’’چار آستینیں‘‘ نہیں ہوتیں۔