پاک سری لنکا تعلقات کا سنگ میل

324

سری لنکا کا شمار جنوبی ایشیا کے اہم ترین اور سارک تنظیم کے بانی ملکوں میں ہوتا ہے۔ دنیا میں جس طرح بیلٹ اینڈ روڈ کے مخالف اور حامی کی تقسیم اُبھر رہی ہے اس میں بھی سری لنکا کی اہمیت دو چند ہے۔ دنیا کے ملکوں میں بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص گزشتہ برسوں میں جو سیاسی اتھل پتھل اور شدت پسندی اور دہشت گردی کا سیلاب آیا اس کا گہرا تعلق تقسیم کی اُبھرنے والی اسی لکیر سے رہی ہے۔ خود پاکستان میں گزشتہ دہائیوں میں کربناک صورت حال کا تعلق اسی تقسیم سے رہا ہے۔ اس کھیل میں کئی ملک تیزی سے اپنے مستقبل کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ جن میں پاکستان، نیپال وغیر ہ شامل ہیں مگر کچھ ممالک ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مرحلے میں ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو ابھی تذبذب کے عالم میں ہیں۔ سری لنکا بھی ان ملکوں میں شامل ہے جو اس زورا زوری کی زد میں رہ چکے ہیں۔ بھارت نے اس ملک کو بہت زخم لگائے ہیں اور دوسرے ہمسایوں کی طرح اس پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ سری لنکا نے اس عمل کی مزاحمت کا راستہ ترک نہیں کیا۔ بھارت نے تامل ٹائیگرز کا خونیں کھیل شروع کرکے اس ملک کو خاک وخون میں نہلا دیا تھا اور اس کا مقصد بدھ اکثریتی ملک میں ہندئووں کے لیے الگ وطن کا قیام تھا۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب بھارت نے سری لنکا میں اپنی فوج اتار دی مگر سری لنکا میں بھارتی فوج کو وہ سبق سکھایا گیا کہ اُلٹے پائوں بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا اور اس کے بعد ہی بھارت نے کسی ملک میں اپنی فوجیں اتارنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی۔ سری لنکا نے اس وار کو بہت کامیابی سے ناکام بنایا اور اس میں پاکستان کا ساتھ بھی رہا۔ سری لنکا کے عوام اور فیصلہ ساز ادارے اس تعاون کو کبھی نہیں بھولے۔
سری لنکا بھی گزشتہ برسوں میں عالمی سطح پر چین امریکا اور علاقائی سطح پر چین بھارت کشمکش کے کراس فائر میں رہا۔ اس تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کا دورۂ سری لنکا بہت اہمیت کا حامل تھا۔ بھارت چونکہ سری لنکا پر اپنا اثر رسوخ قائم بلکہ بڑھانے کی کوششوں میں ہے اس لیے بھارت نے عمران خان کے دورے سے پہلے ہی اسے تنازعات کا شکار کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان کا دورہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا تھا کہ بھارتی میڈیا نے عمران خان کے سری لنکن پارلیمنٹ سے خطاب کی منسوخی کو موضوع بحث بنالیا۔ سری لنکا کی حکومت نے اس کی توجیہہ کورونا وائرس اور مہمان کی حفاظت پیش کی تھی۔ کولمبو میں پاکستانی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے خطاب کا معاملہ زیر بحث تو آیا تھا مگر اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ بھارت عمران خان کے دورہ ٔ سری لنکا کا بہت قریب سے جائزہ لے رہا تھا کیونکہ اسے چین کا اثر رسوخ بڑھانے اور سی پیک میں شریک ہونے کی دعوت کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔ بھارت کو اندازہ ہے کہ سری لنکا میں پاکستان کا اثر رسوخ ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور پاکستان اپنے اس اثر رسوخ کو سری لنکا میں چین کی اسپیس بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ تاریخ کے جس باب میں تامل ٹائیگرز کے ساتھ بھارت کا شمار ’’ولن‘‘ میں ہوتا ہے اسی باب میں پاکستان کا نام ’’ہیرو‘‘ کے طور پر درج ہے۔ پاکستان نے سری لنکا کو اس دہشت گردی اور شدت پسندی کے عذاب سے چھڑانے میں بھرپور فوجی امداد کی تھی۔ بھارت اسی عذاب میں تامل ٹائیگرز کا سرپرست اور معاون تھا۔ اس طرح جنوبی ایشیا کے ایک اور ملک کو ’’سقوط ڈھاکا‘‘ کا زخم دینے کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ سری لنکا کو سی پیک کا شریک سفر بنانے کی کوشش کا بھارتیوں کا خیال اور خدشہ چنداں غلط بھی نہیں تھا۔ عمران خان نے اپنے دورے میں سری لنکا کو سی پیک سے فائدہ اُٹھانے کی دعوت بھی دی۔
کولمبو ائرپورٹ پر عمران خان کا ریڈ کارپٹ استقبال حقیقت میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی کا پتا دے رہا تھا۔ سری لنکا کے وزیر اعظم مہندرا راجا پکاسا نے ائرپورٹ پر بنفس نفیس عمران خان کا استقبال کرکے تعلقات کی ایک نئی نہج کا اشارہ دیا۔ یہ عمران خان کا بطور وزیراعظم سری لنکا کا اور کسی سربراہ مملکت کا کورونا وبا کے بعد سری لنکا کا پہلا دورہ تھا۔ استقبال میں انہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ سری لنکا کے وزیر اعظم مہندرا راجا پکاسا نے پاکستان کے کردار اور عمران خان کی کھل کر تعریف کی۔ انہوں نے مشکل حالات میں عمران خان کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا۔ عمران خان نے جوابی خطاب میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے تاریخی پس منظر کا ذکر کیا۔ کرکٹ کے زمانے کی یادوں کا سرسری تذکرہ کیا اور سر ی لنکا کو سی پیک اور پاکستان کے ذریعے دنیا کے ساتھ جڑنے اور مواقع سے فائدہ اُٹھانے کی دعوت دی۔ بھارت اس خو ف کا شکار تھا کہ عمران خان سری لنکن پارلیمنٹ سے خطاب میں جنوبی ایشیا کے دیرینہ تنازعے اور نریندر مودی کا ذکر کریں گے۔ عین ممکن ہے کہ اسی خوف نے سری لنکن حکومت کو پارلیمنٹ سے خطاب کے آپشن کو ترک کرنے پر مجبور کیا ہو۔ عمران خان بھی ہٹ کے پکے ہیں اور انہوں نے اس کے باوجود سری لنکن سرزمین پر مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا۔ ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کا واحد تنازع کشمیر ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس مسئلے کا حل مذاکرات میں ہے۔ اس طرح بھارت کا خدشہ او ر خوف صحیح ثابت ہوا کہ عمران خان اس موقع کو بھی مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ عمران خان کا یہ دورہ جہاں پاک سری لنکا تعلقات کا سنگ میل ہے وہیں اس ہمسایہ ساحلی ملک سے بھارت کے اثر رسوخ کے لپٹنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔