جماعت اسلامی نے سینیٹ انتخابات میں مبینہ خریدوفروخت کی تحقیقات کیلےے قائم کمیٹی مسترد کردی

175

اسلام آباد(صباح نیوز+آن لائن) جماعت اسلامی نے 2018ءکے سینیٹ انتخابات میں مبینہ خریدوفروخت کی تحقیقات کے لیے قائم حکومتی کمیٹی کو غیر قانونی قراردے کر مسترد کردیا، جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ کمیٹی کی طرف سے ان کی کردارکشی کی گئی جس کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ منگل کو کمیٹی میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ کمیٹی خودقابل تفتیش ہے، یہ کیا تفتیش کرے گی، عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے 20ارکان فی ایم پی اے 5کروڑ یعنی ایک ارب روپے میں بک گئے، یہ پوری پارٹی ہی قابل تفتیش ہے اس پارٹی اور اس کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نے ایک ایسی کمیٹی بنائی ہے جو منتخب سینیٹرز کو بلارہی ہے، ان سینیٹرز کو بلا رہی ہے جن کوارکان صوبائی اسمبلی نے منتخب کیا ہے۔ سینیٹرز کی جیت کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا ہے اس کمیٹی میں ایک غیرمنتخب نمائندہ بھی ہے ۔ کمیٹی کا دوسرارکنمخصوص نشست پر منتخب ہوکر آیا ہے ایک نان الیکٹڈ کمیٹی کیسے منتخب ارکان سینیٹ کو بلا سکتی ہے۔ یہ سینیٹ کی توہین ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں کہتا ہوں کہ وزیراعظم قوم پر مسلط کیے گئے اور سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں جن کو کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے جن کا مینڈیٹ جعلی ہو تو ان کی کمیٹی کی کیا حیثیت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ میں 2 چیزوں کی وجہ سے یہاں آیا ہوں ایک طرف جماعت اسلامی احتساب کی بات کرتی ہے اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتی ہے۔ میں اس لیے کمیٹی میں پیش ہونے آیاہوں تاکہ لوگوں کوپتا چلے کہ جماعت ہر فورم پر احتساب اور محاسبے کے لیے تیار ہے۔ 25فروری کو اخبارات اور ٹی وی میں نوٹس لیک کیا گیا جس سے یہ کمیٹی انکاری ہے۔ میڈیا پر میرا نام اور میری تصاویر چلتی رہی ہیں جس کوجوڑا جارہا ہے کہ یہ کم ووٹوں سے کس طرح سینیٹر منتخب ہوگئے ۔ یہ کردار کشی ہے یہ بہت بڑا جھوٹ ہے، یہ ایک بہت بڑاگھناﺅنا جرم ہے جوان لوگوں نے کیا ہے ۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ کمیٹی میں شامل لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب میں سینیٹر منتخب ہوا تو اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں کتنے ارکان تھے۔ ان کو یہ بھی پتا نہیں ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے کتنے سینیٹرز نے منتخب ہونا تھا اگر یہ لوگ یہ معلومات چیک کرلیتے تو ان کو مجھے نہ بلانا پڑتا۔ یہ لوگ میرے اثاثے دیکھ لیتے یا میری جماعت کے اثاثے دیکھ لیتے ۔ میری جماعت کے سربراہ کے اثاثے دیکھ لیتے یا میری جماعت کی تاریخ دیکھ لیتے تو ان کو پتا چل جاتا کہ جماعت اسلامی کا کوئی لیڈر اس طرح کے کاموں میں ملوث نہیںہوتا۔ انہوں نے کہاکہ سینیٹ کے انتخابات میں خریدوفروخت کا ایشو بالکل واضح ہے خودوزیراعظم نے کہاہے کہ ان کے جماعت کے 20ایم پی ایز ایک ارب روپے میں فروخت ہوگئے ، کمیٹی کوچاہیے کہ سب سے پہلے وزیراعظم کو بلائے اس کے بعد ان 20ایم پی ایز کو بلائے کیونکہ ان 20 ایم پی ایز نے کہا ہے کہ ان کو یہ پیسے اسد قیصرکے گھر پر پرویز خٹک کے ذریعے پی ٹی آئی کے نامزد سینیٹرز نے دیے۔ انہوں نے کہاکہ بکے بھی پی ٹی آئی والے ہیں خریدنے والا بھی پی ٹی آئی کا ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ میرا مطالبہ ہے کہ آغاز وزیراعظم، اسد قیصر، پرویز خٹک ، 20ایم پی ایز اور پارٹی کے لوگوں سے کیا جائے۔قبل ازیں حکومتی کمیٹی میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے مطالبہ کیا کہ اس کمیٹی کی کارر وائی براہ راست دکھائی جائے تاکہ عوام اس کمیٹی کی کارروائی کو دیکھ سکیں تاہم کمیٹی نے ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا یادرہے کہ وزیراعظم نے وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری ،وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فوادچودھری اور مشیرداخلہ واحتساب شہزاد اکبر پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کی ہے تاہم کمیٹی کے اجلا س میں شہزاد اکبر شریک نہیں ہوئے۔ ذرائع کے مطابق وڈیو اسکینڈل کمیٹی نے 3 سینیٹرز کو دوبارہ نوٹسز جاری کر دیے۔کمیٹی نے 20 ایم پی ایز کو بھی نوٹس جاری کر کے طلب کر لیا۔ایم پی ایز سے وڈیو میں لگنے والے الزامات پر وضاحت مانگی گئی ہے۔وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا ہے آج بھی 3 سینیٹرز کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ تینوں سینیٹرز کو دوبارہ نوٹس بھجوا دیے ہیں۔ علاوہ ازیں وزےراعظم کے مشےر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ کل تک سینیٹ الیکشن وڈیو میں ملوث اراکین کو جواب جمع کرانے کا وقت دیا گیا ہے۔کمیٹی وزیراعظم کو رپورٹ پیش کرے گی۔