جمال خاشقجی کا قتل صرف امریکا ہی غلط ہے ؟۔

514

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018 کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے سے لاپتا ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے قتل کی تصدیق ہوگئی تھی۔ بعد ازاں سعودی عرب کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں واقع قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی صحافی کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا تھا جبکہ گمشدگی کے چند روز بعد جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل کے گھر کے باغ سے برآمد ہوئے۔ بعدازاں سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 8 ملزمان کو قید کی سزائیں سناتے ہوئے مقدمہ ختم کردیا تاہم گزشتہ سال مقتول صحافی کے لواحقین نے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد قانون کے تحت سزائیں کم کردی گئیں۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن نے دو سال قبل اس قتل کی رپورٹ کی تیاری کے لیے سی آئی اے کو حکم جاری کیا تھا اور اپنی نگرانی میں اس واقعے کی رپورٹ اور ثبوت بھی جمع کیے تھے۔ اس دوران صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے اور ان کی منگیتر کو امریکا بلایا گیا اور ان سے بھی ضروری معلومات حاصل کی گئی تھیں۔ ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے کو جان سے مارنے لیے 4افراد کا گروپ امریکا بھیجا گیا تھا جس کو کینیڈا سے امریکا میں داخل ہوتے وقت گرفتار کر لیا گیا تھا۔
سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر امریکی رپورٹ مسترد کردی۔ امریکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ولی عہد کے بارے میں جو رپورٹ بائیڈن سامنے لائے ہیں اس کے حصول کے لیے ولی عہد کے زیر استعمال موبائل میں ایک وائرس داخل کیا گیا یہ وائرس اسرائیل کی سافٹ ویئر کمپنی کے پاس ہے۔ اسرائیل کی سافٹ ویئر کمپنی نے ولی عہد کے موبائل سے ترکی میں جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 17افراد کے بارے میں مکمل معلومات، ان افراد کے ترکی آمد و روانگی اور ترکی سے جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ان کی مردہ حالت میں ولی عہد کو بھیجی گئی تصویر اور اس کے بعد لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دفن کرنے کی مکمل تفصیل جو ویڈیوزکی صورت میں موجود تھی حاصل کرلی۔ اسرائیل کی سافٹ ویئر کمپنی کے اس وائرس میں یہ خوبی ہے اگر کسی شخص کے موبائل میں اس کو داخل کرنا ہے تو اس کو فون کیا جائے اور اگر اس دوران کسی نے فون وصول کر لیا تو وائرس فون وصول کرنے والے کے موبائل میں داخل ہو جائے گا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ اپریل سے اکتوبر 2020ء کے دوران 24گھنٹوں میں ایک سے دو مرتبہ گفتگو بھی ہوتی تھی، یہو دو نصار یٰ سے یہی دوستی اب شاہ سلمان اور ان کی اولاد کے لیے عذاب بن رہی ہے اور پوری دنیا میں ان کے خلاف ایک طوفان برپا کیا جارہا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کے معاملے پر امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ منفی، غلط اور ناقابل قبول ہے جسے مسترد کرتے ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی رپورٹ میں غلط معلومات کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی قتل میں سعودی حکام نے ملکی قوانین کے تحت ہر ممکن قدم اٹھایا اور بہتر انداز میں تحقیقات کیں تاکہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے جب کہ ملزمان کو سعودی عدالت سے مجرم ٹھیرا کر سزائیں بھی دیں جن کا جمال خاشقجی کے اہلخانہ نے خیر مقدم کیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں سعودی قیادت اور ملک کے عدالتی نظام پر لگائے گئے الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔ واضح رہے کہ امریکا نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے جو انٹیلی جنس رپورٹ جاری کی ہے یہ رپورٹ 2 سال پرانی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کے لیے ترکی کے شہر استنبول میں آپریشن کی منظوری دی۔ خیال رہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ وہ اپنی شادی سے متعلق کاغذی کارروائی یہاں مکمل کرسکتے ہیں۔
امریکا نے محمد بن سلمان کو ولی عہدی کے منصب سے ہٹانے کا مطالبہ کر دیا ہے اور ان کی جگہ امریکا کا حمایت یافتہ ولی عہد بنانے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ پاکستان اور ترکی کی جانب سے حمایت کے اعلان کے بعد اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو بھی محمد بن سلمان کی حمایت کے لیے میدان میں اُتر آئے ہیں اور اس میں بھی اسلام دشمنی کے مقاصد سرِفہرست ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کا خیال ہے اگر محمد بن سلمان ترکی اور پاکستان کے قریب ہو گئے تو اس سے پاکستان ترکی اور
سعودی عرب کے درمیان 4برسوں سے جاری نوک جھوک کا خاتمہ ہو جائے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا جمال خاشقجی کو قتل کرنے کی سعودی افسران میں جرأت ہو سکتی ہے؟ یہ بات ٹھیک ہے سعودی عرب میں قاتلوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف سزائوں کا جمال خاشقجی کے اہلخانہ نے خیر مقدم کیا تھا لیکن اس کے بعد ان کے بیٹے اور جمال خاشقجی کے اہلخانہ نے امریکا کی رپورٹ کے جواب میں کوئی بیان امریکا میں دیا اور نہ جمال خاشقجی کے اہلخانہ کا کوئی بیان سعودی عرب سے جاری کیا گیا۔ اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ امریکا نے یہ رپورٹ سعودی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے جاری کی ہے اور اس کے تانے بانے پاکستان اور ترکی تک بُننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بھی ٹھیک ہے ٹرمپ کے دور میں بھی سعودی عرب کے پاکستان، ترکی اور قطر سے دشمنی کی حد تک تعلقات خراب ہوگئے اور اس کے مقابلے میں سعودی عرب کے بھارت اور اسرائیل سے تعلقات اور قربتیں بڑھ گئی تھیں۔ اس کے علاوہ اکتوبر اور چند دن قبل ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں سعودی عرب پاکستان مخالف بھارت اور فرانس کے ساتھ تھا یہ تمام حالات سعودی عرب کے امریکا کو خوش کرنے کے لیے تھے لیکن آج اس کے ساتھ امریکا، اسرائیل، بھارت، فرانس اور دیگر غیر مسلم ممالک نہیں ہیں۔ سعودی عرب پر آج امریکا اور برطانیہ کی جانب سے اسلحہ کی فراہمی بند اور حوثی باغیوں کو میزائل سمیت اسلحہ کی فراہمی جاری ہے جس کی مدد سے وہ سعودی عرب پر حملوں میں تیزی پیدا کر رہا ہے۔ سعودی عرب کے ان برے حالات میں پاکستان اور ترکی ہی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اس لیے سعودی عرب کو اب چین، روس، پاکستان اور ترکی کے بلاک کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے یہ اس کے اور عالم اسلام کے مفاد میں ہے۔