تبدیلی ہوا ہوئی

632

تبدیلی لانے کے نعرے کے ساتھ ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں داخل ہونے والی جماعت اور اس کے کرتا دھرتا تا دیر نظام کی کشمکش کے سامنے نہ ٹھیر سکے جنہوں نے اس نظام کی خرابیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ملکی عزت وقار اور قومی بھلائی اور بہتری کی پروا کیے بغیر ملک کے دارلحکومت میں ریکارڈ دھرنا دے کر کرپشن کے صیغے کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی نہ صرف توجہ حاصل کی بلکہ عوامی پزیرائی بھی حاصل کرنے کی بھرپور مہم چلائی اور شاید ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا ہمارے ملک کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ جب ملک میں الیکشن کا تماشا لگا تو اسی سیاسی جماعت نے اقتدار کے حصول کی خاطر اپنی جماعت میں موسمی پرندوں کو بھی خوش آمدید کہا بدلتے موسم کے ساتھ اپنی خوراک کے حصول کے لیے اپنے آشیاں تبدیل کر لینا جن کی پرانی عادت ہے جب پہلے ہی مرحلے میں سوچ و فکر کے محور بدل گئے اور حصول اقتدار کی خاطر نظریات میں تبدیلی آگئی تو پھر الیکشن میں کامیابی کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت سے کسی مثبت تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہی تو تھا گویا الیکشن کے موقع پر عمران خان نے اپنی جماعت میں ان تما م افراد کو خوش آمدید کہا جو ان کو ایوان اقتدار تک پہنچانے میں ان کے معاون اور مددگار ہو سکتے تھے ایک جانب تو انہوں نے اسلام آباد تک پہنچنے کے مقصد پر پوری توجہ سے کام کیا اور دوسری جانب اپنے مخالفین کو مطعون کرنے کا کوئی موقع فراموش نہ کیا اور عوام کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش جاری رکھی کہ ریاست مدینہ کی طرز پر حکومتی معاملات کو مستحکم کرکے ایک اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کیا جائے گا ہمارے حکمران اور سیاسی رہنما شاید اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کے عوام بڑے بھولے ہیں اور ان کو جس طرح چاہو چلا دو لیکن شاید اب ایسا ممکن نہیں موجودہ معاشرے میں عوام کی ایک بڑی تعداد تعلیم یافتہ بھی اور سیاسی شعور اور ادراک بھی رکھتی ہے عوام بخوبی سب کچھ دیکھ رہے تھے کہ آخر تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کس طرح عوامی مسائل اور معاملات حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جلد ہی عوام کو احساس ہو گیا کہ جنہیں وہ عوام کے لیے ایک ہمدرد رہنما کے طور پر دیکھ رہے تھے اور جو گلے سڑے سیاسی اور سماجی نظام کو ہدف تنقید بنارہے تھے اور جو اقربا پروری اور الیٹ کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مژدہ سنارہے تھے وہ خود ہی اس نظام کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگرے عوام آج دیکھ رہے ہیں کہ نظام حکومت کو آئین اور قانون کے تقاضوں اور میرٹ کے مطابق چلانے کے بجائے اپنی دسترس میں رکھنے کے لیے اقربا پروری کا سہارا لیتے ہوئے اپنے دوستوں کو نظام کا حصہ بنا دیا تاکہ نظام حکومت پر اپنی گرفت مظبوط ہو جائے وہ بھی مشیر کی حیثیت سے حکومت کا حصہ بن گئے جو کسی انتخابی نظام کا حصہ نہ تھے اگر ہمارے وزیر اعظم یہ سمجھتے تھے کہ ان افراد کے بغیر وہ نظام حکومت نہیں چلا سکیں گے تو انہیں ان مشیروں کو انتخابی میدان میں پارٹی کی طرف سے اتارنا چاہیے تھا اگر ہمارے آئین میں کہیں اس بات کی گنجائش بھی ہے کہ کسی غیر منتخب فرد کو بھی کچھ مخصوص مدت کے لیے نظام حکومت کا حصہ بنایا جا سکتا ہے تو ضروری تو نہیں کہ اس رعایت سے فائدہ بھی اٹھایا جائے کیوں کہ باصول افراد کبھی بھی نظام کی رعایتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے کیوں کہ کسی بھی نظام میں خرابیاں جب ہی پیدا ہوتی ہیں اور کرپشن کے دروازے بھی جب ہی کھلتے ہیں جب ہم نظام کی کسی رعایتی کھڑکی سے فائدہ حاصل کریں اس طرح ایک جانب تو ان افراد کا استحقاق مجروح ہوتا ہے جو کسی سسٹم سے کامیابی سے گزر کر آتے ہیں اور دوسرے نظام کو روند کر آنے والے افراد اپنی اہمیت کو جان کر سسٹم کا نہ صرف غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ نوازش بے جا سے قومی خزانے پر بوجھ بھی بنتے ہیں اس طرح تو ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کا تسلسل ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں عوام سمجھتے تھے کہ اس موقع پر عمران خان اپنے عام پارٹی ورکرز کو سینیٹ کے ایوان میں پہنچائیں گے اور ان پارٹی ورکرز کو زیادہ اہمیت دیں گے جنہوں نے ان کی دھرنا سیاست میں دن رات ان کے لیے وقف کردیا تھا لیکن عوام کو بڑی مایوسی اس وقت ہوئی جب انہوں نے ان افراد کو پارٹی کی جانب سے سینیٹ کے انتخابی دنگل کے لیے نامزد کیا جو پارٹی کے لیے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں اس طرح ایک عام پارٹی ورکر بری طرح متاثر ہوا اس طرح ثابت ہوا کہ عوام کی بات کرنے والے عمران خان بھی دراصل اس ملک کی اشرافیہ کے ہی نمائندے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ بھی ہیں اور ان کے مددگار بھی وہ بظاہر تو غریبوں کی تسلی کے لیے یہ تو کہتے ہیں کہ ملک کو ریاست مدینہ کی طرز کے ماڈل میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا شاید وہ سمجھتے ہیں ملک کے ضرورت مند عوام کو احساس پروگرام کی مختصر سی امداد کے ذریعے ایک فلاحی ریا ست قائم کر سکتے ہیں یا شیلٹرز ہوم بنا کر ضرورت مندوں کو سر چھپانے کا ٹھکانہ فراہم کرکے ایک فلاحی ریاست قائم کر سکتے ہیں تو شاید ایسا ممکن نہیں یہ اپنے لو گوں کو نوازنے کا طریقہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم کو خود ایک انقلاب آفرین شخصیت اور ٹیم کی صورت میں پیش کرنا ہوگا سرکاری وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا اور اس کے لیے ایک سماجی انقلاب کی ضرورت ہے جس میں امیر اور غریب کا مرتبہ ایک ہو سرکاری وسائل سے جتنا استفادہ اس مملکت کے بڑے بڑے مقتدرین اور کار سرکار انجام دینے والے افراد کرتے ہیں اتنا ہی فائدہ اس ملک کے غریب کو بھی پہنچے اس طرح نہیںکہ کہیں توکچھ مقتدر اور کار سرکار انجام دینے والے اس قرضدار ملک کے خزانے سے لاکھوں روپے اور مختلف نوعیت کی مراعات اپنا حق سمجھ کر حاصل کریں اور کہیں اسی مملکت کہ لوگ بھوک اور پیاس سے مرجائیں اور وسائل کی عدم دستیابی سے خود کشی کرلیں اس طرح ہم کیسے ریاست مدینہ کے ماڈل کی طرف سفر کر سکتے ہیں۔
اگر وزیر اعظم عمران خان واقعی ریاست پاکستان کو عظیم اور مثالی ریاست مدینہ کے ماڈل میں ڈھالنے کے خواہش مند ہیں تو پھر انہیں رحمت العالمینؐ کی سیرت و کردار اور انتظام حکومت کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ جو شہنشاہ عرب و عجم تھے اپنی نعلین مبارک خود گانٹھ لیا کرتے، پیوند زدہ لباس زیب تن کرتے جنگ خندق کے موقع پر آپؐ دیگر اصحاب کے ساتھ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، عام زندگی میںمسافروں کا بوجھ اٹھالیتے اور انہیں ان کی منزل تک پہنچا دیتے خود بھوکے رہتے لیکن دوسروں کے کھانے کی فکر دامن گیر رہتی جب صاحب حیثیت افراد مسلمانوں میں مال تقسیم کرنے کے بھیجتے تو خود کچھ لیتے بلکہ جب تک سارا مال و اسباب تقسیم نہ ہو جاتا گھر تک نہ جاتے تھے یہی حال آپؐ کے تربیت یافتہ اصحاب کا تھا سب ہی ایک دوسرے کے حامی اور مدگار تھے خلفاء راشدین کا تو یہ حال تھا ہمیشہ آخرت میں جوابدہی کا خیال ان کو دامن گیر رہتا ایک موقع پر خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ نے ارشاد کیا کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے پیاس کے سبب کوئی کتا بھی اپنی جان گنوا بیٹھا تو مجھے ڈر ہے کہ مجھے اس کا بھی کہیں جواب نہ دینا پڑے اللہ اکبر جب حکمرانوں میں یہ سوچ پیدا ہو جائے تو عوامی فلاح و بہبود کا دور خود شروع ہو جاتا ہے پھر حکمرانوں اور کاروبا ر حکومت چلانے والوں کو نہ تو محل نما بڑی بڑی رہائش گاہوںکی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ سفر کے لیے بڑی بڑی گاڑیاں درکار ہو تی ہیں ایسے حکمرانوں اور ان کے اہلکاروں کو نہ تو زر کثیر کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی مراعات کی طلب اور نہ ہی جاہ و حشمت کہ طلب گار ہوتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ حاکم نہیں بلکہ اللہ کے بندوں کے خادم ہیں، جب حکمران خوف خدا سے عاری ہو جائیں تو انہیں مال دولت بھی درکار ہوتا ہے محل نما بڑی بڑی رہائش گاہیں بھی ان کی ضرورت بن جاتی ہیں وہ جاہ و حشمت کے طلبگار بھی ہوتے ہیں اللہ کے بندوں میں اپنے کو زیادہ افضل جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کوشش میں وہ سب کچھ کر بیٹھتے ہیں جہاں سے جرم اور کرپشن کی راہیں کھلتی ہیں یہ مال دولت اور جاہ وحشمت کی طلب ہی تو ہے جو انسان کو انسانیت کے اعلیٰ ترین معیار سے نیچے لا پھینکتی ہے اور انسان ساری دنیا کا مال سمیٹ لینا چاہتا اور یہ بھول جاتا ہے کہ نہ یہ مال آخرت میں اس کے کام آنے والا ہے اور نہ اولاد اور پھر ایسے حکمران حاکم بن کر اپنے اقتدار کو طول دینے اور اقتدار سے زیا دہ سے زیادہ مستفید ہونے کے لیے اپنے دوستوں کو بھی نوازتے ہیں اور اپنے اقربا کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کردیتے ہیں۔
جب ہم سابقہ ادوار حکومت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ سابقہ حکمرانوں کے دور میں پارلیمان سے لے کر سرکاری اداروں تک ہر طرف کچھ مخصوص افراد کا راج تھا باپ، بیٹا، بیوی، بیٹی، پوتا، نواسے اور تو اور بھانجوں اور بھتیجوں کا بھی سرکاری وسائل سے استفادہ کرنے کا سلسلہ جاری و ساری تھا اور وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے اسی مسئلہ کو لے کر نہ صرف رائے عامہ ہموار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا اور عوام کو حکمرانوں کے خلاف لا کھڑا کیا عوام کو تبدیلی کا نعرہ متعارف کر ایا کہ اس نظام نے عام آدمی کا استیصال کیا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ اس طرح سرکاری وسائل سے استفادہ کرنا بھی کرپشن کی ایک شکل ہے اور اس میں تبدیلی لائے بغیر ملک ترقی کی راہ گامزن نہیں ہو سکتا۔ عوام نے جس تبدیلی کی خاطر عمران خان اور ان کی جماعت کو بڑے جوش و خروش سے ایوان اقتدار تک پہنچانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا تھا اب وہ عمران خان اور ان کی جماعت کی کارکردگی سے اتنا ہی پر یشان اور اپنے کیے گئے فیصلے پر پشیمان ہیں وہ سمجھتے ہیں مو جودہ دور حکومت بھی سابقہ حکومتوں کا تسلسل ہی ہے آج بھی اپنے اپنوں کو ہر سطح پر ایڈجسٹ کرنے کا عمل جاری ہے پارلیمان سے سرکاری اداروں تک صرف وہی افراد فیضیاب ہو رہے ہیں جو عمران خان اور ان کی جماعت کے اہم افراد کے منظور نظر ہیں عام عوام کا کوئی پرسان حال نہیں کمزور طبقہ پارلیمان تک پہنچنا تو دور کی بات ہے اس کی طرف دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا اور رہا سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ عہدوں کا تو وہاں تک ہر کسی کی رسائی آج بھی ناممکن ہے اس طرح نہ تو تبدیلی آسکتی ہے اور نہ ہی ریا ست مدینہ کا ماڈل قائم ہو سکتا ہے۔