سب جیت گئے‘ عوام ہار گئے

403

کئی ہفتوں سے جاری سینیٹ الیکشن ڈراما عدالت عظمیٰ کی رائے یا فیصلہ آنے کے بعد ختم ہوگیا۔ ٹی وی چینلز‘ اخبارات‘ سوشل میڈیا‘ سیاسی جلسے ہر جگہ ایک ہی بازگشت تھی کہ حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے دھاندلی کرنا چاہتی ہے‘ اپنے ارکان اسمبلی کو باندھ کر رکھنا چاہتی ہے اسے ان پر اعتماد نہیں ہے۔ دوسری طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جمہوریت دشمنی کر رہی ہے‘ خفیہ رائے دہی سے ووٹوں کی خرید و فروخت کا راستہ کھلتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کبھی دائیں دکھایا کبھی بائیں دکھایا‘ کبھی کوئی سوال اٹھایا اور کبھی کوئی تبصرہ کیا اور بالآخر یکم مارچ کو اپنی رائے دے دی کہ یہ سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ ہی سے ہوںگے۔ عدالتِ عظمیٰ نے رائے دی ہے کہ الیکشن آرٹیکل 226 ہی کے تحت ہوںگے۔ پارلیمنٹ ترمیم کر سکتی ہے تاہم ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔ الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ انتخابی عمل سے کرپشن ختم کرنے کے لیے قانون میں ترمیم نہیں کی جارہی؟ اس رائے یا فیصلے کی تفصیل تو بعد میں آئے گی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے جو کچھ کہا اپوزیشن اور حکومت دونوں نے اسے اپنی کامیابی قرار دیا ہے۔ عدالت نے جو اشارہ دیا ہے کہ بیلٹ پیپر ہمیشہ خفیہ نہیں رہتا‘ اس سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ حکومت کو یہ فکر ہے یا کسی اور کو یہ فکر ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کس نے کس کو ووٹ دیا۔ وہ یہ کیوں معلوم کرنا چاہتے ہیں‘ اس کیوں کا جواب بھی عدالت میں سماعتوں کے دوران آچکا ہے کہ جب اپوزیشن حکومت میں ہوتی ہے تو وہ ایسا قانون وضع نہیں کرتی کہ کرپشن کو روکا جائے اور جب وہی حکومت اپوزیشن بن جاتی ہے تو حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ قانون میں ترمیم کرے۔ پاکستان میں شو آف ہینڈ اور خفیہ بیلٹ کے حوالے سے کئی مرتبہ انتخابات ہوئے اور کبھی کبھی سرکار کی مرضی سے اصول تبدیل کر لیا جاتا تھا لیکن اب عدالت عظمیٰ آئین کی رکھوالی ہونے کا کام زیادہ کر رہی ہے اس لیے معاملہ وہاں چلا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کہاں سے بریک لگا رہا تھا۔ 23 دسمبر کو ریفرنس عدالت عظمیٰ میں پہنچا اور یکم مارچ کو رائے دی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاملہ بہت سادہ تھا۔ جو صاحب صدر مملکت کے منصب پر پہنچ گئے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انتخابات کس آئینی شق کے تحت ہونے چاہئیں۔ ان کے ریفرنس کے قابل سماعت ہونے کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے آئین کی تشریح کے سب سے بڑے ذمے دار ادارے کو معلوم ہی ہوگا کہ سینیٹ الیکشن آئین کے آرٹیکل 226 ہی کے تحت ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ حکومت پاکستان میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور ماہرین قانون موجود ہیں‘ صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ میں جاتے وقت اور اس کے حق میں دلائل دیتے وقت بھی انہیں معلوم ہوگا کہ الیکشن کس قانون کے تحت ہونے چاہئیں اور کیسے۔ لیکن جب ممکنہ طور پر سب کو معلوم تھا تو پھر قوم کے سوا دو ماہ کیوں ضائع کیے گئے؟ عدالتِ عظمیٰ کی رائے سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عدالت کو بھی قانون کا علم تھا۔ پی ڈی ایم سمجھ رہی ہے کہ اس کی کامیابی ہے اس لیے اس نے بغلیں بجانا شروع کردی ہیں۔ حکو مت خوش ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نے بیلٹ شناخت کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اب جو کچھ ممکنات میں ہے وہ یہ ہے کہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے اپوزیشن ہی کے سینیٹرزکو خرید اور دبا کر اس کے امیدواروں کو ہروا دیا جائے۔ یہ امکان بھی ہے کہ خفیہ بیلٹ کے ذریعے بڑے پیمانے پر حکومت کے سینیٹرز کو ہروا دیا جائے اور اگر حکومت بیلٹ دیکھنا چاہے تو اس کو اتنا وقت بھی نہ ملے کہ وہ بیلٹ شناخت کرسکے۔ یعنی اس کی چھٹی ہی کر دی جائے۔ اس صورت میں بھی دونوں فریق یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں۔ لیکن دونوں یہ بھول گئے کہ
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
یہ شاطر ہی تو ہے جو ان معاملات پر نظر رکھنا چاہتا ہے کہ کون سے مہرے کو کہاں فٹ کرنا ہے‘ کس کو ہٹانا ہے۔ لہٰذا یہ سارے امکانات موجود رہیں گے۔ شاطر کا ارادہ تو مہروں کی حرکات سے پتا چلتا ہے جب شہ مات ہو چکی ہوتی ہے۔ جہاں تک کامیابی کا تعلق ہے تو پنجاب سے سینیٹرز کی نشستوںکی مساوی تقسیم نے ثابت کر دیا کہ اوپر اوپر تو شور مچایا جاتا رہا ہے لیکن درحقیقت اندر سے دونوں ایک ہی نکلے۔ اب عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھے کہ بتائو الیکشن میں اس طرح کیوں ہوا…؟ لیکن اس کا وقت اب نہیں ہے بلکہ شاطر کی نگاہ میں اس کی اب ضرورت نہیں۔ درحقیقت عدلیہ بھی جیت گئی۔ حکومت بھی اور اپوزیشن بھی کامیاب شکست تو صرف عوام کو ہوئی ہے۔ ایک سادہ سے معاملے پر سوا دو ماہ گزارنے کے بعد سب جیت گئے ہاں یہ ضرور ہو اہے کہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہونے کی وجہ سے حکومت کوئی ترمیم نہیں لا سکی اور اب وقت نہیں رہا۔