‘ایک ڈکٹیٹر نے اقتدار کی خاطر ملک تباہ کیا’ جسٹس قاضی فائز جذباتی ہوگئے

443

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری کزنز نے کہا ریفرنس آپ کے دوستوں نے خارج کیا ہے، کزنز نے کہا آپکے ساتھی آپکے خلاف کیوں فیصلہ کریں گے،موجودہ کیس اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے آزادی اظہار رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کوئی فالتو بات کروں تو میری سرزنش کی جائے سپریم کورٹ کے جج اوراہلخانہ کے خلاف سرکاری چینل سے پروپیگنڈا کیا گیا، مسئلہ 10 لاکھ تنخواہ کا نہیں، ملک کے مستقبل کا ہے میں یہ جنگ اپنے ادارے کے لیے لڑ رہا ہوں اگر میری جگہ آپ کی اہلیہ اور بچے ہوتے تو آپ لوگ کیا کرتے؟ کل کو کسی بھی جج کو پروپیگنڈے میں گھسیٹا جاسکتا ہے اگر فاضل ججز کو کوئی بات گراں گزری ہوتو معذرت چاہتا ہوں،

جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ ہم آپ کو سننے بیٹھے ہیں، آپ دلائل جاری رکھیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں میڈیا کی حالت دیکھ لیں، صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم کیا ہوا صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی اگر ذمے داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرادیا جاتا ہے قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہوگی،  ایک فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار کی ہوس نے ملک تباہ کردیا۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب یہ قانون کی عدالت ہے، ہم نے مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر رکھیں بہتر ہوگا کہ ہم اپنی حدود سے باہر  نہ  نکلیں اگر کوئی صحافی اغوا ہوا ہے تو اس کی الگ سے پٹیشن دائر کریں۔

جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ قاضی صاحب جذباتی نہ ہوں، کیس پر فوکس کریں، ہر بات ہرجگہ کرنی مناسب نہیں ہوتی، جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ نے کہا کہ  میری ذات کو بھول جائیں، ملک کے لیے جذباتی ہورہا ہوں، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔