پیپلز پارٹی اور بلدیاتی ادارے

445

کسی نے خوب کہا ہے کہ ایماندار وہ نہیں ہے جسے بے ایمانی کا موقع ہی نہ ملا ہو بلکہ وہ ہے جسے بے ایمانی کا موقع ملے اور وہ اس سے فائدہ نہ اُٹھائے۔ اصول پسندی اور ایمانداری کا دعویٰ کرنے والے افسران کو جب تک سرکاری عہدوں پر تعینات کر کے انہیں با اختیار اور آزاد نہ چھوڑ دیا جائے اس وقت تک ان کی ایمانداری کا ثبوت نہیں مل سکتا۔ متعدد سرکاری افسران و ملازمین یقینا سب کے سامنے ہوں گے جو اپنے منہ میاں مٹھو بن کر اپنی ایمانداری، دیانت داری اور فرض شناسی کا اظہار کرتے ہوں گے، لیکن دور حاضر میں ایسے افسران کو تلاش کرنا یقینا ایک مشکل کام ہے۔
ملک کے سرکاری اداروں کی تباہی کے ذمے دار دراصل بدعنوان اور راشی افسران ہی نہیں بلکہ وہ وزرا بھی ہیں جو ایمانداری اور بد عنوانی کے خاتمے کا دعویٰ کرتے ہوئے چن چن کر کرپٹ افسران کو اہم عہدوں پر فائز کرتے ہیں۔ ایسے افسران اپنی اوپر کی آمدنی سے راتوں رات ہر طرح کی ترقیاں حاصل کرکے اپنے حلقے میں بااثر بھی ہو جاتے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی بلکہ اس کے ذریعے پورے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو تباہ و برباد کرنے میں ایسے ہی وزراء اور ان کے من پسند افسران کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہاں کراچی کے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے کی ہم بات کریں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی بات نہ کی جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد ذمے داران، عہدیداران اور ان کے لگائے ہوئے افسران حکومت چلانے کے لیے کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ فروغ چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہاں کے بیش تر محکمے، ان کے وزراء اور افسران کی اکثریت بے قاعدگی اور لاقانونیت کے مقدمات میں ملوث ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی اور کراچی کے شہریوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں ماضی قریب کی منتخب کونسل کے سربراہ یعنی میئر اور ڈپٹی میئر بھی لاقانونیت اور کرپشن کے معاملات سے پاک نہیں تھے۔ میئر وسیم اختر کی سربراہی میں قائم منتخب کونسل نے کراچی کے لیے کوئی بڑا مثبت کام نہیں کیا۔ بہرحال جیسے ہی منتخب کونسل ختم ہوئی توقع تھی کہ حکومت سندھ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے شہر میں کچھ مثبت کام کرانے کی غرض سے قابل تعریف اقدامات ضرور کرے گی۔ لیکن توقعات کے برعکس پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے پہلے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے جس افسر کو تعینات کیا وہ مبینہ طور پر نااہلی کا ایک مثالی ریکارڈ رکھتے تھے۔ لیکن ان کا بھی ایک اصول تھا کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نہیں تھے۔ افتخار شلوانی مختصر سے ایڈمنسٹریٹر رہے مگر انہوں نے اپنی مرضی کے بغیر بھیجے گئے کسی افسر کو بلدیہ عظمیٰ کراچی میں تعینات نہیں کیا۔ دوسرے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کراچی کے سپوت لئیق احمد کا تقرر کیا گیا تو مجھ سمیت متعدد افراد کو یہ یقین تھا اب جلد ہی کے ایم سی سے کرپٹ افسران کی چھٹی ہو جائے گی اور ایک بہترین نظام کا آغاز کر دیا جائے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ماسوائے باتوں کہ کچھ بھی بہتر نہیں ہو رہا ہے۔ آمدنی بڑھانے کے نام پر کراچی کی بیش تر سڑکوں پر چارج پارکنگ سائٹ تخلیق کر دی گئی ان مقامات کی نیلامی بھی وہی پرانے نظام کے تحت کرکے نئے ٹھیکیداروں کو دے دی گئیں۔ پہلے 31 مقامات پر پارکنگ کرائی جاتی تھی اب بیانوے مقامات پر گاڑیوں کو پارک کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے وہ بھی زائد چارجز کے عوض۔ ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد کس قدر اصول پسند افسر ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پرانے کرپٹ ترین افسران کو ہٹانے کے بجائے انہیں میونسپل سروسز اور انتظامی سربراہ کی پوسٹ پر تعینات کردیا اور اپنے قریب کرلیا۔ کراچی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے سینئر ڈائریکٹر اب ان کے سینئر ڈائریکٹر کوآرڈینیشن کے ساتھ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز بھی ہیں جبکہ سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی حیثیت سے جمیل فاروقی نامی افسر مسلسل اسی عہدے پر فائز ہیں حالانکہ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سندھ کے محکمہ بلدیات کے جانب سے معطل کیے جانے والے آفیسر ہیں اور خلاف قانون سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن سمیت دیگر اسامیوں پر تعینات ہیں حیرت انگیز طور پر چیف سیکرٹری سندھ اور صوبائی وزیر بلدیات اس کھلی بے قاعدگی و لاقانونیت پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر نے کے ایم سی کے سینئر اور قابل ترین پی ایچ ڈی افسر ڈاکٹر قاضی منصور کو سینئر ڈائریکٹر اسپورٹس و کلچرل تو مقرر کردیا مگر اس محکمے میں ماضی قریب اور اس کے اسپورٹس کلب میں کی جانے والی بے قاعدگیوں پر آنکھیں بند کرکے اس کا بوجھ نئے سینئر و ایماندار ڈائریکٹر پر ڈال دیا۔
موجودہ ایڈمنسٹریٹر ترجیحی بنیادوں پر وہ کام کرا رہے ہیں جو وہ اپنے پہلے دور میں نہیں کراسکے تھے۔ 2009 میں بھرتی کیے جانے والے شاہ فیصل کالونی کے فائرمین کی ترقی اگر جائز تھی تو اسے ضرور ترقی دینا چاہیے لیکن اصول پسند افسر سے یہ سوال ہے کہ کیا 2009 سے پہلے بھرتی ہونے والے تمام فائر مینوں کو ترقیاں دی جاچکی ہیں؟ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کے 2011 اور پھر دو ہزار پندرہ میں جن فائر مینوں کی ترقیوں کے لیے سینئر ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن کی طرف سے پرموشن لیٹرجاری کیے گئے تھے ان پر بھی اب تک عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ حقداروں کو حق دینے میں بڑی رکاوٹ سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز خود جو کے ایم سی میں نہ صرف خلاف قانون تعینات ہے بلکہ آوٹ آف ٹرن ترقیاں حاصل کرنے کے ماسٹر بھی ہیں۔ جبکہ ایک فائر مین محمد اختر جو 1997 میں بھرتی کیا گیا تھا پرموشن آرڈر لیے مسلسل بھاگ دوڑ کر رہا ہے تاکہ اس آرڈر پر عمل درآمد ہو سکے۔ تاہم اصول پسند ایڈمنسٹریٹر کی موجودگی کے باوجود اب تک محمد اختر کی ترقی کے حکم نامے پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی ترقی کے حکم پر عمل درآمد نہ کرانے میں ملوث افسران کے خلاف کوئی کارروائی کی جا سکی۔ محمد اختر کا کہنا ہے کہ اس ناانصافی کے خلاف وہ جلد ہی صوبائی حکومت اور عدالت سے رجوع کرے گا۔ اسے ایسا ہی کرنا چاہیے کیوں کہ جہاں لاقانونیت عام ہو وہاں عدالتوں سے ہی انصاف مل سکتا ہے۔ اصول پسندی اور کانوں کے کچے نہ ہونے کے دعوے دار ایڈمنسٹریٹر اب تک یہ بھی نہیں معلوم کر سکے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں کنٹریکٹ پر 2011 سے موجود 423 ملازمین کو 2018 میں مستقل کرنے کے عدالت کے حکم پر ان ملازمین کی تعداد گیارہ سو سے زائد کس طرح ہوگئی اور کن وجوہات کی بنا پر ان کو حق دار ملازمین کی فہرست میں شامل کیا گیا ایسا کرکے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو مالی اور انتظامی نقصان پہنچایا گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جولائی 2018 مستقل کیے جانے والے ان حق داروں کو تاحال ان کے ایک سال کے بقایا جات بھی نہیں مل سکے اور آئندہ ملیں گے بھی یا نہیں اس بارے میں بھی کوئی کچھ نہیں کہتا جبکہ ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد نے اس اہم معاملے کو نظرانداز کیا ہوا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت تمام بلدیاتی اداروں کا اصل چیف ایگزیکٹو آفیسر میٹروپولیٹن کمشنر یا میونسپل کمشنر ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر وہ اپنے اختیارات استعمال کرنے گریز کرتے ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ میں طویل عرصے بعد میٹروپولیٹن کمشنر کی اسامی پر چند ماہ قبل پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کے فرض شناس اور بااصول افسر صلاح الدین تعینات کیے گئے تھے جنہیں ایک ماہ کے دوران ہی اس پوسٹ ہے ہٹا دیا گیا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے ادا کرنا چاہ رہے تھے۔
رواں حکومتی سسٹم اب خود اصول پسند اور دیانت دار نہیں رہا تو وہ کس طرح کسی دیانتدار اور اصول پسند افسر کو برداشت کر سکتا ہے۔اگر صوبائی حکمرانوں کو کسی بھی لحاظ سے کراچی کے بلدیاتی اداروں کو درست راہ پہ چلانا ہو تو اسے چاہیے کی صلاح الدین جیسے افسران کی خدمات حاصل کریں ورنہ سب کو آزاد چھوڑ دے۔ سابق صوبائی وزیر بلدیات شرجیل میمن نے ایک نجی نے ٹی وی انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ صوبائی وزیر بلدیات کی ماہانہ آمدنی دس کروڑ روپے ہوتی ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کے موجودہ وزیر بلدیات اس عہدے پر رہ کر کتنی غیر قانونی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ کے حوالے سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک بااصول اور خوش اخلاق شخصیت ہیں وہ روایتی وزراء کی ’’خصوصیات‘‘ نہیں رکھتے۔ مگر راقم کا سوال و مسئلہ یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت سب ہی شہری اداروں کو کون قواعد و ضوابط کے مطابق چلا کر انہیں ایماندار ماڈل ادارے بنانے گا؟