چین کی آبی برتری

684

تبت دنیا کی چھت اور سطح سمندر سے اوسطاً چھ سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پلیٹو 50 ملین سال پہلے وجود میں آیا۔ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے انسان نے یہاں ڈیرے ڈالنے شروع کیے۔ اس قدر بلندی پر وسیع و عریض میدانوں، جنگلوں، جھیلوں، گلیشیرز، برف زاروں، آسمان سے باتیں کرتی چوٹیوں کی سرزمین ہے۔ یہاں پر دنیا کے سب سے بلند سبزہ زار پائے جاتے ہیں۔ الپائن ویجیٹیشن زون پینتالیس سو میٹر بلند ہے۔ تبت کا 70فی صد علاقہ گراس لینڈ ہے۔ یہاں پر چار بڑے ریزروائر ہیں جو چین نے بنائے ہیں۔ یہاں پر وائلڈ یاک اور برفانی چیتا پایا جاتا ہے جو تقریباً 3 سے 4 ہزار فٹ کی بلندی پر مسکن بناتا ہے۔ یہاں پر اب 7ہزار چیتے رہ گئے ہیں۔ آبادی کی اکثریت بدھ مت ہے۔ دلائی لامہ روحانی پیشوا ہیں۔ 1951ء سے چین کا قبضہ ہے۔ ماؤزے تنگ کے مشہورِ زمانہ پانچ انگلیوں کے پنچ کی ایک انگلی تبت ہے۔ چین نے یہاں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں۔ لہاسہ جو تبت کا دارالحکومت ہے وہاں تک ریل پہنچ چکی ہے۔ چین کو اصل مسئلہ یہاں کے بنجاروں سے ہے جو گھر نہیں بناتے اور نہ ہی شناختی کارڈ اس لیے ان لوگوں کا سراغ رکھنا مشکل ہے۔ تبت تزویراتی لحاظ سے دنیا کا سب سے اہم مقام ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ تبت کو ایشیا کا واٹر ٹینک بھی کہاجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہاں سے نکلنے والے دریا ہیں۔ یہاں سے دنیا کے دس بڑے دریا نکلتے ہیں۔ جو پورے جنوبی ایشیا، جنوبِ مشرقی ایشیا اور چین کو سیراب کرتے ہیں۔ تقریباً 3 بلین آبادی کا انحصار ان دریاؤں پر ہے جو دنیا کی آبادی کا 46فی صد بنتا ہے۔ اس لحاظ سے تبت ایشیا کا ایتھوپیا ہے۔ یاد رہے کہ ایتھوپیا سے دریائے نیل سمیت 6 بڑے دریا نکلتے ہیں۔ جو مشرقی افریقا کی لائف لائن ہے۔
تبت سے نکلنے والے ان دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ ہے جو پاکستان میں زندگی کی بنیاد ہے۔ مشہورِ زمانہ وادیٔ سندھ کی تہذیب اسی دریا کے کنارے آباد تھی جو آج سے 4ہزار سال پہلے دنیا کی پہلی شہری تہذیب تھی۔ جس کے مشہور شہروں میں موہنجودڑو اور ہڑپا شامل ہیں۔ دوسرا دریائے ستلج ہے جو انڈیا اور پاکستان میں بہتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس دریا کا پانی ہندوستان استعمال کرتا ہے لیکن اس کا کافی حصہ پاکستان میں ہے جو پنجند کے مقام پر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ تیسرا دریا گنگا ہے جو ہندوستان کی جان ہے۔ گنگا جمنا تہذیب اسی دریا کے کنارے بسائی گئی تھی۔ اس دریا کو ہندو تہذیب میں مقدس درجہ حاصل ہے۔ ہندو مرنے کے بعد اپنے مردوں کی راکھ اس دریا میں بہانا متبرک خیال کرتے ہیں۔ چوتھا دریا ہرہما پترا ہے جو بنگلا دیش اور مشرقی ہندوستان کو سیراب کرتا ہے۔ ان چاروں دریاؤں کا منبع ایک ہی ہے جو کیلاش کے پہاڑوں میں ہے۔ پانچواں دریا ایراویدی ہے جو ہندوستان میں بہتا ہے۔ یہاں سے نکلنے والا ایک اور دریا سالوین ہے جو میانمر میں بہتا ہے۔ دریائے میکونگ سب سے لمبا دریا ہے جو چین، میانمر، تھائی لینڈ، لاؤس، کمبوڈیا اور ویت نام سے ہوتا ہوا بحیرہ جنوبی چین میں گرتا ہے۔ ییلو دریا چین میں بہتا ہے۔ اس کی لمبائی 5464 کلومیٹر ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں بڑا دریا ہے جو شنگھائی پلیٹو سے نکلتا ہے اور چین کے 9صوبوں سے بہتا ہوا بوہاٹی سمندر میں جاگرتا ہے۔ اس دریا کو ’’چین کی ماں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یانگ سی دریا بھی چین میں بہتا ہے۔
90 کی دہائی کے آغاز میں جب چین میں ترقی کا آغاز ہوا تو چین نے اپنے ملک میں بننے والے مختلف دریاؤں اورندی نالوں پر ڈیم بنانے شروع کیے۔ چین اب تک تقریباً 90 ہزار سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جو دنیا کے کل ڈیموں کا نصف ہے۔ دوسرے نمبر پر امریکا ہے جہاں پر چین سے ایک تہائی ڈیم پائے جاتے ہیں۔ چین اپنی بجلی کی ضرورت کا 60فی صد سے زائدکوئلے سے پورا کرتا ہے جس کو وہ اب بڑھتی ہوئی پلوشن کے پیش ِ نظر ہائیڈل سے پورا کرنا چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے چین نے تبت پر موجود دریاؤں پر ڈیم بنانے شروع کردیے ہیں۔ اپر ریپیرن ہونے کے ناتے چین کو ان دریاؤں پر اپنے پڑوسی ملکوں کی نسبت فوقیت حاصل ہے۔ چین کی اس پالیسی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہندوستان ہے۔ 2002ء سے چین دریائے گنگا اور برہما پترا کا ڈیٹا ہندوستان کے ساتھ شیئرکرتا تھا۔ لیکن 2017ء کے دوکلام اسٹینڈ آف کے بعد سے چین نے یہ ڈیٹا شیئر کرنا بند کر دیا ہے۔ اس نے دریائے براہما پترا پر 4 ڈیم تعمیر کر لیے ہیں۔ جس سے دریا کے بہاؤ میں فرق پڑگیا ہے۔ اب چین نے ہندوستانی سرحد کے بالکل قریب دریائے براہما پترا پر سپر ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہوگا۔ اس سے نہ صرف ہندوستان کا پانی کم ہوجائے گا بلکہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں اس کا نقصان صرف اور صرف انڈیا کو ہوگا۔ انڈیا اور چین کے بیچ کسی قسم کا واٹر ایگریمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے چین اپنے ہمسائے کے ساتھ کسی تعاون کا مجاز نہیں ہے یاد رہے کہ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا لینڈر یعنی قرضے فراہم کرنے والا ملک ہے۔ چین کو اپنے ملک میں ڈیم بنانے کے لیے کسی ڈونر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اپنے وسائل سے خود بڑے سے بڑا ڈیم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انڈیا نے اس ڈیم کے اثرات کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اپنی سرحد کے اندر دریا پر ایک ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
چین نے دریائے میکونگ پر شالون ڈیم بھی بنایا ہے جو 292 میٹر بلند ہے اور اس کی جھیل کی لمبائی تقریباً 160 کلومیٹر ہے۔ چین ایسے آٹھ اور ڈیم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں سراسیمگی پھیل چکی ہے۔ ان لوئر ریپیرین ممالک بشمول انڈیا اور بنگلا دیش کو سخت قسم کے واٹر اور فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ درپیش ہو گیا ہے۔ لگتا ہے مستقبل میں دوسرے ممالک کو چین سے کھلونوں سے لے کر جہازوں تک خریدنے کے ساتھ ساتھ BRI کے روٹس سے آٹا چاول اور بجلی بھی خریدنا پڑے گی۔ چین کا پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پر مستقبل میں کسی قسم کے ڈیم یا ریزروائر بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے ایسے کسی خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے خود سے اپنے دریاؤں پر زیادہ سے زیادہ ڈیم بنالینے چاہییں تاکہ ہم بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ فوڈ اور واٹر سیکورٹی کو بھی یقینی بناسکیں۔