سینیٹ کا وجود قومی خزانے پر بوجھ ہے

550

آئین پاکستان کا بغور مطالعہ کرنے پر بھی ہمیں سینیٹ کی افادیت معنویت یا ضرورت کا احوال کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اب یہ ہماری کم علمی ہی کہہ سکتے ہیں، البتہ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور ارکان کے انتخابات کا طریقہ کار کی وضاحت درج ہے، مگر جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے پاکستان میں سینیٹ کی آمد کے وقت اس کے دو مقاصد بیان کیے گئے تھے۔ اول اس ایوان میں چاروں صوبوں کی نمائندگی مساوی ہوگی اور دوم اس کے ارکان کے لیے قابل اور تعلیم یافتہ افراد کا انتخاب کیا جائے گا جو ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ تو رکھتے ہیں مگر الیکشن یا سیاسی جھمیلوں سے گھبراتے ہیں۔ ابتدا میں تو سینیٹ میں صوبوں کی نمائندگی مساوی رہی مگر جلد ہی سیاست دانوں کو ایک اور روزگار میسر ہوگیا اور اس کے لیے ارکان کا انتخاب تعلیم اور قابلیت کے بجائے ’’پارٹی بیس‘‘ بن گیا۔ جس صوبے میں جس پارٹی کی اکثریت ہوتی وہ دوسرے صوبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو سینیٹر منتخب کراسکتا ہے۔ جس کی مثال شاہی سید اے این پی سندھ کے صدر ہیں ان کو کے پی کے سے اعزاز بخشا جاتا ہے۔ اس طرح ایوان میں مساوی نمائندگی کا جو خواب تو چکنا چور ہو جاتا ہے۔ اب آتے ہیں دوسرے مقصد کی طرف۔ اس ایوان کو ایوان بالا کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کے ارکان کو عوام نہیں بلکہ ان کے منتخب کردہ نمائندے منتخب کرتے ہیں، لہٰذا اس کا معیار بھی بلند ہونا چاہیے مگر یہاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا انتخاب کرنے کے بجائے سیاست دانوں نے اس کو بھی ایک سرکاری ادارہ بنادیا ہے اور جس سیاسی شخصیت کو چاہتے ہیں سینیٹر بنادیتے ہیں۔ عوام نے کسی نامور شخصیت کو مسترد کردیا تو عوام کے نمائندوں نے اس کو بھی کامیاب کرادیا اور ایسا شخص عوام کو منہ چڑاتا ہے کہ اگر تم ووٹ نہیں دو گے تو کیا ہم کامیاب نہیں ہوں گے، ہم سیاست میں IN ہی رہیں گے۔ بعض دور اندیش سیاست دان خطرے کو دور ہی سے بھانپ لیتے ہیں اور قومی اسمبلی کی نشست سے دستبردار ہوجاتے ہیں مگر ساتھ ہی پارٹی سے سینیٹ کے ٹکٹ طلب کرتے ہیں کہ یہاں ہارنے کا چانس کم ہی ہوتا ہے اور سارا کام مک مکا یا پیسہ سے ہوتا ہے۔ متحدہ پاکستان کے سابق رہنما فاروق ستار نے پہلے اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے محسن کامران ٹسوری کو ضمنی الیکشن کا ٹکٹ دیا مگر ناکامی ہوئی تو پارٹی سے کامران ٹسوری کے لیے سینیٹ کے ٹکٹ کا اسرار کیا اور پارٹی سے دور ہوتے چلے گئے اور اب متحدہ پاکستان بچائو کمیٹی کے زیردست اپنا سیاسی مستقبل بچانے کی جستجو میں مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کو عدلیہ نے برخاست کیا تو ان کی نشست پر ان کے صاحبزادے کو الیکشن لڑایا گیا اور تجربہ ناکام رہا اور اب سنا ہے سینیٹر کے امیدوار ہوں گے۔ یہاں ہماری ناقص عقل کام نہیں کرتی کہ جہاں بلدیاتی ادارے، صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی جسے بڑے منتخب ایوان موجود ہیں وہاں کسی غیر منتخب ایوان کی ضرورت کیوں، بالکل اسی طرح جیسے سیکڑوں منتخب ارکان کے ہوتے ہوئے مشیران اور معاون خصوصی کے لیے غیر منتخب افراد کا انتخاب کیوں؟ پھر ایک طویل عرصے کے دوران سینیٹ کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ انجام دے سکا جو اس کی بقا اور ضرورت کا باعث ہو بلکہ اس معزز ایوان کے لیے گھوڑوں کی تجارت المعروف ہارس ٹریڈنگ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی یہ خرید و فروخت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل نے ایک ویڈیو وائرل کی ہے جس میں ارکان اسمبلی کے سامنے نوٹوں کی گڈیاں اس طرح رکھی ہوئی ہیں جیسے شیلف میں کتابیں چنی ہوں، اس کے ساتھ ہی ایک کلپ جوڑ توڑ کے بادشاہ کا دکھایا گیا جو ببانگ دہل اعلان کررہا ہے کہ سینیٹ تو نہیں جیتنے دوں گا پھر اس کا دعویٰ درست ثابت ہوا جب کے پی کے میں صرف 7 ارکان ہوتے ہوئے 2 سینیٹر منتخب ہوئے۔ جن کے لیے 32 ارکان کی حمایت ضروری تھی۔ غالباً اسی سے متاثر ہو کر امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کو کہنا پڑا ’’اب کے گھوڑوں کے بجائے پورے کے پورے اصطبل ہی فروخت کرادیے گئے‘‘۔ جب اس کاروبار میں اتنی سرمایہ کاری کی جائے گی تو پھر منافع بھی 100 فی صد ہی ہوگا اور بوجھ پڑے گا عوام پر، پہلے ہی پونے دو لاکھ روپے فی بچہ مقروض ہے اور سب سے قرضہ بھی ہماری تبدیلی سرکار نے لیا اور ملبہ ڈال دیا ماضی کی حکومتوں پر۔ تو میرے بھائی قرض اُتارنے کے لیے مزید قرض لینا کہاں کی دانشمندای ہے۔ چادر بڑی کرنے کے بجائے پیر موڑ کر سونے میں کیا حرج ہے۔ غیر منافع بخش اداروں کو پالنے کے بجائے ختم کرنا ہوگا اور سب سے پہلے سینیٹ کو ختم کرنا ہوگا جہاں صرف ایک سینیٹر تنخواہ، مراعات اور بیوی بچوں کی سہولت کے ساتھ 4 لاکھ روپے مہینے کا پڑ رہا ہے تو پھر اس 100 سے بڑے ایوان کا خرچہ یقینا ماہانہ کروڑوں میں ہوگا اور اگر سالانہ اخراجات اربوں میں بنتے ہیں اور وہ ایوان جس نے کرنا کرانا کچھ نہیں سیاست دان بیٹھ کر نمبر کا گیم کھیلتے ہیں ایسے ایوان پر اربوں روپے خرچ کرنا بے سود ہے۔