عورت کا تحفظ مضبوط خاندان میں ہے

497

کیا 8 مارچ کے بعد پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد 11 ماہ کے لیے معطل ہوجائے گی۔ ہر سال مغرب سے ایک زوردار پروپیگنڈا حملہ آور ہوتا ہے۔ اس میں زور کم ہوتا ہے اسے ہمارا میڈیا زور آور بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ مغرب کو سب سے مرغوب چیز اعداد وشمار کا گورکھ دھندا لگتی ہے۔ اور اس کی بنیاد پر مسلم معاشروں پر حملہ کیا جاتا ہے اور ہمارے جغادری اور بڑے بڑے دانشور ڈھیر ہو کر اسی پروپیگنڈے کو من و عن دہرانے لگتے ہیں۔ تازہ پروپیگنڈا اسی طرح شروع کیا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد 52 فی صد ہے لیکن یہاں خواتین کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے۔ بہت سے مردوں اور خواتین کو یہ سبق رٹایا گیا ہے کہ 52 فی صد ہونے کے باوجود عورتوں کو پاکستان میں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ خواتین کو ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے جس میں تعلیم، صحت اور تحفظ سرفہرست ہیں۔ جنسی ہراساں، زبردستی کی شادیاں اور ذہنی دبائو ان کے مسائل ہیں۔ عوامی مقامات پر جانے کے لیے انہیں اپنے تحفظ کی طرف سے فکر مند رہنا پڑتا ہے۔ جہاں مرد موجود ہوں انہیں گندی نظروں، جملے بازی اور زبردستی چھوٹے جانے کا خوف رہتا ہے۔ مغربی پروپیگنڈے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں خواتین کو دوسرے درجے کی مخلوق یا ناقص العقل قرار دیا جاتا ہے۔ ایک خاتون نے تو رٹے ہوئے سبق کو ٹوئٹ کردیا اور فیمن ازم میں مرد، عورت، خواجہ سرا سب کو شامل کرکے سب کو موثر معاشی، سماجی، سیاسی برابری دینے کا مطالبہ کردیا۔ گویا مرد اور خواجہ سرا بھی فیمن ازم میں شامل ہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے ہر سال ایک ماہ کے لیے زور
پکڑتے ہیں۔ بقیہ 11 ماہ میڈیا کے ذریعے عورت کی وہی تصویر پیش کی جاتی ہے جو مغرب نے اپنے ایجنڈے میں بتادی ہے۔ یہ درست ہے کہ عورت کمزور ہے۔ اسے باہر نکل کر اپنی حفاظت کی فکر رہتی ہے لیکن کیا پاکستان ہی میں ایسا ہے۔ نہیں پاکستان تو عورت کے لیے دنیا بھر کے مقابلے میں محفوظ ترین جگہ ہے۔ ذرا کسی بازار میں ایک عورت آواز تو لگادے کہ یہ نوجوان لڑکے مجھے تنگ کررہے ہیں پھر دیکھیں کہ اس کے کتنے بیٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ملزم کو کتنی جلدی وہاں سے بھگاتے ہیں یا اس کی درگت بناتے ہیں۔ کیا بھارت میں ایسا ہوسکتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں ایسا ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں سب جانتے ہیں۔ وہاں کیا ہوتا ہے لیکن بات تو پاکستان کی ہورہی ہے جہاں عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق اور کم عقل قرار دینے کا الزام ہے۔ یہ الزام لگا کر حملہ کہاں کیا جارہا ہے۔ مسلم خاندانی نظام پر۔ جب کہ یہی خاندان نظام عورت کو مضبوط اور محفوظ بناتا ہے۔
ایک دفعہ جنگل میں لومڑی کی دم کٹ گئی تو اس نے سوچا بری لگ رہی ہوں تو سارے دم دار جانوروں کو مشورے دینے لگی کہ تم بھی دم کٹالو۔ تو مغرب کا مشورہ بھی اسی طرح کا ہے۔ اس کا خاندانی نظام تباہ ہوگیا۔ اس آزادی نسواں کی 1848ء کی تحریک کے نتیجے میں عورت کو آزادی تو اب تک نہیں ملی۔ ہاں خاندانی نظام تباہ ہوگیا۔ مغرب میں عورت گھر سے باہر نہ نکلے تو کھانے پینے کے لالے پڑ جائیں۔ چین میں خاندان ہی نہیں بچا تو نظام کہاں ہوگا۔ ہم صرف پاکستان پر لگائے گئے الزامات پر توجہ رکھتے ہیں کہ بتایا گیا ہے کہ یہاں عورت گھر سے باہر محفوظ نہیں۔ ایسا کہنا بالکل غلط ہے۔ اس کا سبب عورت کی کمزوری نہیں قانون کی کمزوری ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ ایک عورت سونا اچھالتی ہوئی ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملک میں جائے گی اور اسے کوئی خوف نہ ہوگا۔ بس اس کی شرط ہے کہ اسلام کے قوانین نافذ کردیے جائیں اور چشم فلک نے یہ منظر کئی سو برس تک دیکھا ہے۔ خراب ترین حالات کے باوجود ہم خود سعودی عرب میں عورتوں کو بسوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرتا دیکھ چکے ہیں۔ اسے چھوڑیں پاکستانی معاشرے پر الزام لگانے والوں کا مقصد خواتین کا تحفظ نہیں ہے۔ مسلمان خواتین کی محفوظ پناہ گاہ ان کے خاندانی نظام کو نشانہ بنانا ہے۔ جس روز پاکستانی خواتین اور مرد یہ سمجھ گئے کہ مضبوط خاندان سے عورت محفوظ اور معاشرہ مستحکم ہوتا ہے اس روز وہ یہ جنگ جیت جائیں گے۔ میں نے کہیں پڑھا ہے اور لکھنے والے نے خوب لکھا ہے کہ یہ جنگ ہے اور جنگ میں مرکز پر حملہ ہوتا ہے اور ہمارا مرکز خاندان ہے اس پر حملہ کیا جارہا ہے۔ خاندان کو مضبوط بنائیں اپنا دفاع مضبوط کریں۔
اب ذرا کچھ ذکر مقدس مغرب کا ہوجائے۔ یہ جاننا ہمارے لیے خواتین کے حقوق کے بارے میں جاننے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ خواتین کے حقوق کے چمپئن دو ممالک ہیں ایک امریکا اور دوسرا برطانیہ باقی ان کے شامل باجا ہیں۔ امریکا بھی پاکستان کی طرح کا ملک ہے وہاں بھی آبادی میں خواتین کی تعداد 50 فی صد سے زیادہ ہے لیکن امریکا میں پارلیمنٹ کے اندر خواتین کی نمائندگی 23.2 فی صد ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں خواتین کو کم تر سمجھا جاتا ہے بلکہ وہاں خواتین کو کچھ بھی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں خواتین دن کے وقت بھی تنہا نہیں نکل سکتیں۔ خواتین سے زیادتی میں امریکا سب سے آگے ہیں۔ یہی حال برطانیہ کا ہے جہاں آبادی کا پچاس فی صد سے زیادہ خواتین ہیں اور ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے جب کہ ان کے تحفظ کا مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں خواتین اپنی مرضی سے شادی کرتی ہیں لیکن غیر مطمئن ہو کر اپنی مرضی سے طلاق بھی لیتی ہیں کیوں کہ ان سے نزدیک خاندانی نظام کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کی محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے تو ان کو تحفظ کہاں سے ملے گا۔ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خواتین غیر محفوظ ہیں دوسرے درجے کی مخلوق سمجھی جاتی ہیں لیکن ہر معاملے میں تو ایسا نہیں۔ جب الزام لگے گا تو جہاں سے الزام آرہا ہے ان سے موازنہ بھی ہوگا اور فرق صرف ایک نظر آئے گا مغرب اسلامی خواتین اور معاشرے سے ناواقف ہے اور ہمارے حکمران ناواقف ہیں لیکن معاشرہ تو اتنا گیا گزرا نہیں غلط کو غلط ہی کہتا ہے۔ فرق صرف اسلامی نظام اور قوانین کے نفاذ کا ہے۔ جس دن یہ نافذ ہوں گے برکتیں خود سامنے آئیں گی عورت تو کیا مرد بھی محفوظ ہوں گے۔