نوشتہ دیوار

351

روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی ایک خبر بنا کسی ترمیم و تحریف نقل کر رہا ہوں تاکہ ’’نوشتہ دیوار‘‘ کا مطلب اور مفہوم قارئین کو اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔ خبر کچھ یوں ہے کہ ’’وزیر اعظم عمران خان خیبر پختون خوا کے دارالحکومت پشاور پہنچے جہاں انہوں نے کئی اجلاسوں کی صدارت کی۔ دورے میں ان سے خیبر پختون خوا کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے ملاقات کی تاہم اب اس اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیردفاع پرویز خٹک کا کہنا تھاکہ نوشہرہ انتخابات میں ہمارے ساتھ دھاندلی کی گئی، جتنے بیلٹ پیپرز جاری ہوئے ووٹ اس سے زیادہ نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے ٹھوس ثبوت ہیں اور نتیجے کے خلاف عدالت جائیں گے، ریٹرنگ افسران نے دھاندلی کروائی۔ رکن اسمبلی شوکت علی کا کہنا تھاکہ سینیٹ انتخابات کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائی جائے، ایسا نہ ہو کہ کوئی ووٹ نہ بیچے اور اس پر غلط الزام عائد کردیا جائے، ارکان پیسے بھی لے لیتے ہیں اور پھر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں پارٹی امیدواروں کو ووٹ دیں جو رکن ووٹ بیچنا چاہتا ہے تو پارٹی سے نکل جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم سے ملاقات میں 14 ارکان قومی اور 6 ارکان صوبائی اسمبلی غیرحاضر رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ غیرحاضرارکان مختلف وجوہات اور مصروفیات کے باعث شریک نہ ہوسکے‘‘۔
یہ وہ خوش قسمت حکومت ہے جس کے ساتھ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سارے ادارے تاحال ایک پیج پر نظر آ رہے ہیں حتیٰ کہ وہ ادارے جو اس سے قبل کسی بھی حکومت کے سامنے اپنے سر پر کیپ بھی محض اس لیے نہیں رکھا کرتے تھے کہ کہیں انہیں سلوٹ نہ کرنا پڑ جائے وہ موجودہ وزیر اعظم کو سلوٹ بھی کرتے نظر آ رہے ہیں، اپنے بڑے گھر میں خوش آمدید بھی کرتے ہیں حتیٰ کہ صاحب کی ذاتی رہائش گاہ کے طواف در طواف کرنے میں بھی انہیں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ ایک ایسی حکومت جس کی مرکز میں بھی طمطراقیاں ہوں، تین صوبے بشمول خیبر پختون خوا، ایک مضبوط حکومت ہو، اس صوبے میں موجود اسی پارٹی کا ایک وزیر دفاع، ’’صاحب‘‘ سے یہ شکایت کرتا نظر آئے کہ الیکشن میں ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے تو پھر سوال کرنے والے کیا یہ نہیں پوچھیں گے کہ آپ یہ گلا شکوہ اپنے ہی آپ سے کیوں کر رہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت جو اپنے ہی وزیر اعظم سے یہ کہہ رہی ہو کہ صاحب بڑی دھاندلی ہو گئی ہے، ہمارے پاس دھاندلی کے ثبوت بھی موجود ہیں تو پھر یہ سوال تو بنتا ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت خود کہاں کھڑی تھی اور اب جب سانپ گزر چکا ہے تو لکیر کیوں پیٹی جا رہی ہے۔
پرویز خٹک جس حلقے میں دھاندلی کی شکایت کر رہے ہیں وہاں یقینا دھاندلی ہوئی ہوگی اس لیے کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کا ہار جانا صوبائی حکومت کے لیے ہی نہیں، مرکزی حکومت کے لیے بھی ایک گالی سے کم نہیں لہٰذا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہاں حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کا دباؤ الیکشن کمیشن کے عملے اور ووٹر پر نہ رہا ہو۔ یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے اپوزیشن کا جیت جانا شیر کے منہ سے نوالہ چھین لینے جیسا ہی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی دھاندلی کو کیا اپوزیشن کو روکنا چاہیے تھا یا ہر قسم کی غیر قانونی اقدامات کو روکنا حکومت کے دائرہ اختیار میں آیا کرتا ہے۔ وزیر اعظم سے فرمایا جا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں بہت ہی توجہ کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کی تشکیل ہو یا وزیر اعظم اور صدر کا چناؤ، اس میں ہمیشہ اسی سیاسی پارٹی کو تخت و تاج ملتا ہے جو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔ اب تک ہونے والے ایسے تمام چناؤ میں پی ٹی آئی اپنی اکثریت ثابت کرتی چلی آئی ہے تو کیا وجہ ہے کہ سینیٹروں کے چناؤ میں پی ٹی آئی اتنی پْر اعتماد کیوں نظر نہیں آ رہی جیسا آج سے 32 ماہ قبل ہر آزمائشی مرحلوں میں دکھائی دیتی رہی ہے۔ اس بات کا جواب بھی وزیر اعظم کے سامنے خود ان کے وزرا دیتے رہے ہیں۔ ایک وزیر با تدبیر کا فرمانا تھا کہ ارکان پیسہ بھی پکڑ لیتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جائے تو وہ صاف مکر بھی جاتے ہیں۔ وہی حکومت جو معاملات میں لین دین کا سارا الزام اپوزیشن پر دھرتی چلی آ رہی ہے اس کا ایک وزیر اگر خود اس بات پر شکوہ سنج ہو کہ اس قسم کے الیکشن میں خود اس کی پارٹی کے افراد پیسہ بٹورنے سے باز نہیں آتے تو پھر وہ کسی چور ڈاکو کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیسے کر سکتے ہیں۔
ضمنی الیکشن میں ایک دو نشستوں پر نہیں، ہر نشست پر حکومتی پارٹی کی بری طرح شکست اور خاص طور سے ان نشستوں پر جو ان کی جیتی ہوئی تھیں، ہار کو معمولی سمجھنا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ ایک جانب ہر نشست پر ہار کا طوق تو دوسری جانب اپنی ہی قومی و صوبائی اسمبلی کے ایک دو نہیں پورے 20 ارکان کا وزیر اعظم سے ملاقات کرنا تک گوارہ نہ کرنا بہت ہی واضح اشارے ہیں کہ پاؤں کے نیچے سے ریت سرکنا شروع ہو چکی ہے اور عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ سینیٹروں کے چناؤ کے لیے اب الیکشن خفیہ ہوں یا اعلانیہ، ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کا رویہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے اور گمان یہی ہے کہ عمران خان کی حکومتی کار کردگی، ٹیکسوں کے سیدھے ہوتے تیر اور مہنگائی کے بے قابو جنوں نے پی ٹی آئی سے عوام کی محبتوں کو نفرتوں میں اس بری طرح بدل کر رکھ دیا ہے کہ اس کا اثر مقتدر ایوانوں میں بیٹھے نو دولتیوں کے اذہان کو بھی موجودہ حکومت کے خلاف بنا کر رکھ دیا ہے لہٰذا عمران خان اپوزیشن کی جان چھوڑ کر اپنے ارکان کی جانب توجہ دیں۔ ممکن ہے کہ ان کی ’’خاص‘‘ توجہ ہڈی کا کام کرجائے اور بے ہنگم شور قابو میں آ جائے۔