جامعات کی خودانحصاری

228

خیبر پختون خوا کی تاریخی اور مایہ ناز مادر علمی جامعہ پشاور سمیت صوبے کی اکثر جامعات ان دنوں مالی بحران کی جس کیفیت سے گزر رہی ہیں اس پر سنجیدہ طبقات کا رنجیدہ ہونا ایک فطری امر ہے۔ ویسے تو ہمارا پورا تعلیمی نظام پچھلی کئی دہائیوں سے بھونچال کی زد میں ہے لیکن موجودہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ پر جو کٹ لگائی ہے اس کا واضح نتیجہ جامعات کو درپیش سنگین مالی مسائل کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جس نے خیبر پختون خوا جیسے پسماندہ صوبے کی جامعات کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا ہے حتیٰ کہ بعض جامعات کو تنخواہیں اور پنشن دینے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کی نظیر ماضی کی کسی بھی حکومت میں ملنا مشکل ہے۔ اس ضمن میں ان دنوں جو جامعہ سب سے زیادہ شدید بحران سے دوچار ہے وہ جامعہ پشاور ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی بنیاد 1950 میں رکھی گئی تھی اور اس میں ان دنوں تقریباً پندرہ ہزار طلبہ وطالبات کو انڈرگریجویٹ، پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہاں چھ فیکلٹی ہیں جن میں چالیس پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹس، متعدد کالجز اور کئی سینٹر قائم ہیں۔ جامعہ پشاور میں وسیع وعریض سبزہ زاروں کے علاوہ بڑی بڑی رہائش گاہیں اور ہاسٹلز موجود ہیں۔ کئی ایکڑ رقبے پر پھیلی یہ خیبر پختون خوا میں قائم ہونے والی پہلی یونیورسٹی ہے جوماضی قریب میں پورے صوبے کی اعلیٰ تعلیم کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مشہور تھی۔ حکومتی بے توجہی یا پھر ملکی معاشی مسائل کے تناظر میں حکومت کے جانب سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کا نظر انداز کیا جانا تو پھر بھی قابل فہم ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان جامعات کے کرتا دھرتا اور بالخصوص یہاں موجود شہہ دماغ بھی ان اداروں کو جاری مالی بحران سے نکالنے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
ان جامعات میں موجود ایسے ماہرین جن کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور جو اپنے اپنے شعبوں میں طویل تجربے کے حامل ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ماہرین اپنے اداروں کو مالی بحرانوں سے نکالنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو شاید ہمارا پیچیدہ نظام اور قواعد و ضوابط ہیں جو ان ماہرین کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں درس و تدریس کے علاوہ عملی میدان میں روبہ عمل لانے سے باز رکھتے ہیں اور شاید اس کی دوسری وجہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس رجحان کا پروان نہ چڑھنا ہے کہ یہ ادارے اپنی مدد آپ کے تحت اپنی مالی خودانحصاری کی جانب بھی پیش رفت کر سکتے ہیں۔ کالم کی تنگ دامنی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہاں اس حوالے سے کوئی لمبا چوڑا منصوبہ پیش کرنا تو ممکن نہیں ہے البتہ اس حوالے سے اشاروں کنایوں میں کچھ مثالیں اور تجاویز ضرور دی جا سکتی ہیں۔
پشاور یونیورسٹی میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی ایک بڑی ٹیم موجود ہے وہ نہ صرف قیمتی انسانی وسائل کو اپنے مالی حالات کے سدھار میں استعمال کرسکتی ہے بلکہ اسے خصوصی اہمیت کے حامل محل وقوع کی وجہ سے جو انفردایت حاصل ہے وہ اسے بھی خصوصی طور پر بروئے کار لا سکتی ہے۔ مثلاً اگر جامعہ پشاور کیمپس کے اندر اور اس کے گرد ونواح میں رہائش پزیر لاکھوں آبادی پرمشتمل طلبہ اور دیگر عام افراد کو ہدف بناکر بعض مخصوص مقامات پرکئی منزلہ رہائشی فلیٹس اور ہاسٹلزکی تعمیر کا منصوبہ بنائے تو اس سے ماہانہ کروڑوں روپے کی آمدن ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی طرز پر پارکنگ اور ریکریشن کی سہولتوں کے حامل ایک یاایک سے زائد بڑ ے شاپنگ مال کی تعمیر اور وہاں بین اقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے بھی آمدن کا ایک کامیاب ماڈل روبہ عمل لایا جا سکتا ہے نیز اس پروجیکٹ میں اعلیٰ معیار کے ایک ریسٹورنٹ اور گیدرنگ ہال کی گنجائش بھی رکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ایبٹ آباد نتھیا گلی، مری روڈ پر باڑہ گلی میں یونیورسٹی آف پشاور کا سمرکیمپس جو نہ صرف 60 ایکڑ رقبے پر محیط ہے بلکہ یہاں موجود گھنے جنگلات، اونچے سرسبز پہاڑ اور یہاں کی خوشگوار آب و ہوا بڑے پیمانے پر سیاحوں کو یہاں کھینچنے میں مدگار ثابت ہوسکتے ہیں جس کے لیے یہاں مناسب سرمایہ کاری کر کے وہ تمام ضروری سہولتیں بہم پہنچانی ہوں گی جو سیاحوں کی ضرورت ہے۔ خود انحصاری کے جانب پیش رفت سے متعلق ان تجاویز میں پروڈکشن یعنی پیداوارکے بعض منصوبے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں ایک بڑا اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے درکار کثیر سرمایہ کہاں سے آئے گا کیونکہ جن اداروں کے پاس اپنے ملازمین کو تنخوا دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں وہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کہاں سے کریں گے تو اس ضمن میں جہاں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے جامعہ پشاور کے لاکھوں صاحب ثروت سابق طلبہ ڈونیشن کی صورت میں یہ مسئلہ حل کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں وہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے قابل عمل ماڈل کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔