سندھ سہ فریقی لیبر قائمہ کمیٹی و کارکردگی فعالیت؟۔

175

شیخ مجید
بظاہر تو نام کی حد تک آئیڈیا بہت موثر مقاصد و بہتری کی جانب نشاندہی کرتا ہے لیکن مزدوروں کے حوالے سے سندھ سرکار 2008ء سے مسلسل کسی موثر عملی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے بلکہ صرف زبانی کلاموں بیان بازی و نعرہ بازی کے ذریعے مزدوروں کو بہلا رہی ہے۔ مزدوروں کی نمائندگی اور سہ فریقی کمیٹیاں یہ صرف شوقین یا اپنے من پسند افراد کو خوش کرنے کا طریقہ ہے۔ صنعتی زون کی بنیاد پر کمیٹی ہو یا صوبہ سندھ کی سطح پر آج تک کوئی بامقصد اجلاس نہ ہی اپنے بنائے ہوئے لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہی فعال و موثر فیکٹری انسپکشن کا نظام کا تدارک زمینی حقائق سے سب کو آگاہی ہے کہ صرف کاغذی خانہ پری جبکہ صوبائی سطح پر قائمہ کمیٹی میں نامور و معروف مزدور رہنمائوں کی موجودگی۔ کیا وہ بتائیں گے کہ آج تک کسی اجلاس میں مزدوروں کے دیرینہ حل طلب بنیادی مسائل کے حل کرنے کے لیے کاغذی و اعلانی کارروائی کے علاوہ کیا کوئی عملی فیصلہ یا اس پر موثر عملدرآمد کروانے میں ان کو کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔ کیا کبھی ان کو سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ اور سوشل سیکورٹی میں سیاسی و سرکاری اہلکاروں کی بے مثال لوٹ مار بدعنوانیوں و بے قاعدگیوں ناقص طبی سہولیات و جعلی ادویات کی فراہمی پر سہ فریقی اجلاس میں آواز بلند کرنے کی توفیق ہوئی۔ صنعتی زون کی سطح پر نامزد کیے گئے متعدد مزدور رہنمائوں کو تو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کمیٹی کے ممبر ہیں جبکہ زون کی سطح پر سرکاری افسر کمیٹی کو اس کی آمدن میں مداخلت و بوجھ سمجھتا ہے۔ صوبہ کی سطح پر 5 اگست کو قائم کردہ قائمہ کمیٹی کا پہلا اجلاس 16 اگست 2020ء کو طلب کیا گیا تھا جس میں سرکار نے ویلفیئر بورڈ اور سوشل سیکورٹی کی کارکردگی بہت خوشنما لفاظی کے ذریعے پیش کردی لیکن حسن اتفاق سے حقاق و حالات کی جانکاری رکھنے والے ایک مزدور رہنما نے زمینی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے ویلفیئر بورڈ کی جانب سے بغیر زمین کی ملکیت کے 1800 فلیٹوں کی اسکیم بمقام جامشورو کے ملکیت کاغذات طلب کیے۔ جس کے لیے 9 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے لیکن تاحال نہ کاغذات پیش کیے گئے نہ ہی کوئی مثبت اور واضح جواب دیا گیا۔ اس جعلی کاغذات فلیٹ پروجیکٹ پر 160 ورک چارج ملازم تنخواہ لے رہے ہیں۔ جبکہ سندھ سوشل سیکورٹی (SESSI) کی جانب سے ایک ماہر کھلاڑی نے اجلاس میں جعلی و کاغذی کارکردگی کو پیش کردیا جبکہ وہ کارکردگی زمینی حقائق کے برعکس مکمل جھوٹ پر مبنی تھی۔ جب اجلاس میں حاضرین کے روبرو زمینی حقائق اور اس وقت کی مکمل واضح صورت حال بیان کی گئی تو موصوف سے کوئی جواب ہی نہ بن پایا۔ لیکن مقام افسوس کہ کمیٹی میں موجود دیگر مزدور نمائندگان حسب خواہش خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ دن اور آج کا دن 9 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سندھ سہ فریقی لیبر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین و سیکرٹری لیبر سندھ نے دوبارہ اس اہم کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی اور نہ ہی کسی ذی ہوش نے اس جانب ان کی توجہ مبذول کروائی۔ شاید چیئرمین کمیٹی اور ان کے ہمنوا اپنے ماتحت محکموں کی بے قاعدگیوں و بدعنوانیوں کو منظر عام پر لانے سے گریز کررہے ہیں۔ کاش جس مثبت انداز و خلوص نیت کے ساتھ سندھ کے مزدوروں کی داد رسی و فلاح بہبود کے لیے قائمہ کمیٹی کا تصور پیش کیا گیا تھا اس کے اغراض و مقاصد کو خلوص نیت کے ساتھ سامنے رکھتے ہوئے کوئی فلاح کا کام ممکن ہوسکے۔