انسانی حقوق کے قاتل امریکا کی منافقت

335

انسانی حقوق کے چیمپئن امریکا کو سعودی عرب میں انسانی حقوق کی فکر ایک بار پھر دامن گیر ہوگئی ہے۔ امریکا کو انسانی حقوق کی فکر موسمی بخار کی طرح چڑھتی اترتی رہتی ہے۔ اس کے لیے سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ بہت بڑا مسئلہ تھا۔ سینما اور تفریح کے مقامات کم ہونے کا شکوہ تھا۔ معاشرہ بند لگتا تھا یہ وہ وقت تھا جب شاہ سلمان برسراقتدار آچکے تھے۔ یہ شکایات تو امریکا کو پہلے بھی تھیں اور کبھی کبھی ان شکایات کا اظہار بھی کیا جاتا رہتا تھا لیکن معاملات طے پاجانے کے بعد ان شکایات کی شدت میں کمی آجاتی یا ان کے اظہار میں وقفے بڑھ جاتے تھے۔ لیکن جب شاہ سلمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو البعید بنایا اور درجنوں لوگوں اور شاہی خاندان کے بہت سے افراد کو گرفتار کیا تو امریکا کو انسانی حقوق کا بخار نہیں چڑھا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکا کی تمام شکایات کا ازالہ کیا۔ خواتین کے کلب بنائے، سینما ہائوس کھلوادیے، ڈرائیونگ کروائی، مخلوط محفلوں کا انعقاد کرایا اور بظاہر آزاد کھلا معاشرہ تشکیل دے دیا اس کام کے دوران ہزاروں افراد لاپتا کیے گئے، شاہی خاندان سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہوٹلوں کو جیل بنایا گیا لیکن امریکا کو انسانی حقوق یاد نہیں آئے۔ معاملہ صرف سعودی عرب کا نہیں ہے۔

سعودی عرب میں کبھی انسانی حقوق اتنے اچھے ہوجاتے ہیں کہ امریکا پھولا نہیں سماتا اسے سعودی ولی عہد مستقبل کا عظیم حکمران نظر آتا ہے۔ اب اچانک امریکا کو پھر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے میں انسانی حقوق یاد آگئے ہیں۔ سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے معاملے میں جو ممکنہ تحقیق اور عدالتی کارروائی کی جاسکتی تھی کرلی اور معاملہ رفع دفع کرلیا ولی عہد کو صاف بچا لیا لیکن امریکا کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے مقصد یہ ہے کہ کیا سعودی حکومت صرف ایک جمال خاشق جی کے قتل کی ذمے دار ہے۔ کیا اس پر صرف ایک صحافی کے قتل کا الزام ہے اور کیا باقی پورا ملک محفوظ ہے۔ امریکی حکام یہ بھی طے نہیں کرپائے کہ انسانی حقوق ہوتے کیا ہیں اور کون سے انسانوں کے ہوتے ہیں دنیا کے 14 ممالک میں امریکا براہ راست جنگ میں مصروف ہے۔ 100 ممالک میں جنگ اور جنگجوئوں کی مدد میں مصروف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز بائیڈن کے حکم پر شام میں حملہ کیا گیا جس میں ڈیڑھ دو درجن افراد یعنی انسان ہلاک ہوئے اسی دن بائیڈن سعودی عرب سے ایک آدمی کے قتل پر انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کررہے تھے۔ امریکا کو مصر میں ایک دن میں چار ہزار لوگوں پر ٹینک چڑھا کر منتخب حکومت کا تختہ الٹنے پر انسانی حقوق یاد نہیں آتے بلکہ مصری جرنیل کی خوب پذیرائی کی گئی۔ اسی امریکا کو بنگلادیش میں جعلی واریبونل کے ذریعے جعلی مقدمات میں جماعت اسلامی کے لوگوں کو موت کی سزائیں دینے پر انسانی حقوق کیوں یاد نہیں آتے۔

برما (میانمار) میں کبھی سوچی کو برسراقتدار لانے کے لیے انسانی حقوق یاد آئے ہیں کبھی اسے اتارنے کے لیے اور آج کل اسے ہٹائے جانے پر فکر مند ہے۔ امریکا کو جین کے ایغور نسل کے مسلمانوں اور دوسری مسلم اقلیت کی تو فکر ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ کشمیر کے ایک کروڑ لوگ مودی کی انسانیت دشمن پالیسیوں کا شکار ہیں۔ بھارتی حکمران ہر حربہ آزما چکے، نہتی عورتوں کو قتل کرچکے، جنگی جرائم کرچکے لیکن امریکا ٹس سے مس نہیں ہوا۔ تشویش سے آگے کبھی نہیں بڑھا، مسئلہ دوطرف طور پر حل کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔

امریکا یہ تو بتائے کہ اگر ایک فرد کی بات کرنی ہے تو جمال خاشق جی کے معاملے میں تو سعودی حکومت نے کارروائی کرلی امریکا میں قید پاکستانی قوم کی عظیم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں جوبائیڈن کو انسانی حقوق کیوں یاد نہیں آتے۔ عافیہ صدیقی پر کون سا ظلم نہیں کیا گیا۔ امریکی حکمران اپنی پالیسیوں اور رویے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک انسانی حقوق کے معیارات مختلف ہیں بلکہ کوئی معیار ہی نہیں ہے ان کے مفادات ہیں اپنے مفاد کے لیے اپنے ہی ملک کے مودی کے بارے میں فیصلے کو ایک جانب رکھ کر اس کو وی آئی پی حیثیت دے دیتے ہیں۔ مودی کو تو بھارت میں مسلمانوں کا قاتل قرار دیا تھا۔ امریکی اپنے مفاد کی خاطر انسانوں کو ٹینکوں تلے کچلنے والے کو ہیرو بنادیتے ہیں۔ یہی امریکی شام میں لاکھوں ماٹن بم مار چکے ہیں اور سب سے بڑھ کر دنیا کی سب سے بڑا بدمعاش ریاست اسرائیل کو لگام نہیں دیتے۔ اسرائیل نے انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی جو دھجیاں بکھیری ہیں اس کے باوجود ہر امریکی حکمران اسرائیل کا غلام بنا رہتا ہے۔ غزہ کا محاصرہ ہے کہ مسلسل جاری ہے وہاں غذا ہے نہ بجلی، نہ علاج کی سہولت، اگر کچھ ملکوں کا دبائو نہ ہوتا تو اب تک پوری آبادی کو مار ہی ڈالا گیا ہوتا۔ لیکن امریکا کو فلسطینیوں کے حقوق انسانی حقوق نہیں لگتے۔

اگرچہ پاکستان امارات، کویت بحرین وغیرہ نے سعودی موقف کی حمایت کردی ہے لیکن سعودی امریکی کشیدگی سے زیادہ امریکی منافقت پر بات ہونی چاہیے۔ یہ کیسا حلیف ہے جو ایک جانب سعودی عرب کی سیکورٹی کے پیسے لے کر اس کے امن کے دفاع کا پابند بنا ہوا ہے۔ اور دوسری طرف اس کے حکمرانوں کو ایک فرد کے مسئلے پر دھمکارہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اہم ہیں لیکن اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائیں گے۔ ارے جوبائیڈن پہلے امریکا کو تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا کے سامنے جوابدہ بنالیں۔ افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو تو امریکا نے مارا تھا ان کے انسانی حقوق کا کون حساب دے گا۔ مدرسوں پر بمباری عام لوگوں کو پکڑ کر گوانتاناموبے پہنچانا۔ ان کی اپنی عدالتوں سے لوگوں کا بے گناہ ثابت ہونا سارے فراڈ نظام کا پردہ چاک کرتا ہے لیکن دنیا بھی منافقت کا شکار ہے کم از کم اسلامی ممالک ہی امریکی منافقانہ پالیسیوں پر مزاحمت کریں۔ سعودی عرب بھی اس وقت امریکا کو چیلنج کررہا ہے جب اس کے ولی عہد پر بات آرہی ہے ورنہ سب اچھا تھا۔ امت مسلمہ کو اس معاملے پر ایک پالیسی بنانی ہوگی کیوں کہ دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مسلمانوں کے خلاف ہورہی ہیں۔