جہانِ حیرت

492

ڈھائی سال مکمل ہونے پر حکومتی کارکردگی اُجاگر کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ایک تشہیری مہم چلانے کی ہدایت کی ہے۔ ہم حیران اور شدید حیران ہیں کہ اس مہم میں وزیراعظم نے کیا کارنامے نمایاں کرنے کی ہدایت کی ہوگی۔ اتنی حیرت تو ہمیں اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب کچھ عرصہ پہلے وزیراعظم عمران خان کو خاور مانیکا کے ساتھ بیٹھے دیکھا تھا۔ ہم متعجب تھے یا خدا یہ دونوں آخر کیا باتیں کرتے ہوںگے۔ وزیراعظم عمران خان شعری ذوق بھی نہیں رکھتے۔ گمان کیا جاسکے کہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کو فیض صاحب کی نظم ’’رقیب سے‘‘ کے یہ اشعار سنا رہے ہوں گے:
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
وزیراعظم عمران خان کی دوسری اور تیسری شادی عربی مقولے ’’کل جدید لزیذ‘‘ (ہر نئی چیز لذت بخش ہوتی ہے) سے انحراف ہے یا پھر وہ بوسیدہ ذوق رکھتے ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن حکومت کرنے کے معاملے میں وہ خلا میں لٹکے نظر آتے ہیں۔ ان کی حکومتی کارکردگی یوٹرن کی باز گشت کے سوا اگر کچھ ہے تو وہ احمد فراز کی رومانوی زندگی کے بھوت شبلی فراز ہی بہتر جانتے ہوں گے۔
حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسے بدل گیا
ن م راشد نے حالی کے متعلق لکھا ہے ’’حالی کے پاس اخلاقی قدروں کے سوا ادب کو جا نچنے کا کوئی اور معیار نہ تھا‘‘۔ نااہلی کی آغوش میں بھنچی اپنی حکومت کی کارکردگی کا جواب دینے کے لیے عمران خان کے پاس بھی نواز شریف پر الزام دھرنے کے سوا کوئی اور تصور نہیں۔ نوشہرہ کا الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان پشاور گئے تو الیکشن ہارنے کا یہ جواز پیش کیا کہ شکست اس لیے ہوئی کہ ن لیگ نے سائنسی قسم کی دھاندلی کی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کل اپنے کسی نومولود کو گود میں لیتے وقت وہ یہی جملہ نہ دہرا دیں۔ نجانے کیوں ان کی حکومت کے مئے و نغمہ کا رنگ نواز شریف کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ پختون خوا میں بھی انہیں ن لیگ تھر کتی مچلتی اور ناچتی نظر آتی ہے جہاں اس کا کوئی ایسا زور ہی نہیں۔ عصمت چغتائی کا افسانہ لحاف پڑھیں تو آدمی سوچتا ہے لحاف میں یہ چیزیں بھی ہوسکتی ہیں وزیراعظم کے اس بیان کے بعد ہم سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف سائنس میں بھی درک رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی توجیح میں انہوں نے نیوٹن اور آئن اسٹائن کی تھیوریاں کیوں ذکر نہیں کیں۔ عمران خان کو جس قوت ثقل کے ساتھ کشش کیا گیا اور نواز شریف کو معمولی سی تنخواہ نہ لینے پر جس طرح روشنی کی رفتار سے ڈس کوالیفائی کیا گیا اس پر مذکورہ دونوں سائنس دانوں کی تھیوریاں تو زیر بحث آسکتی تھیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ کچھ نظر وہ گھر کے معاملات پر بھی ڈال لیں۔ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک اپنے بڑے بھائی کے خلاف کیوں ہوگئے جس کے نتیجے میں سیٹ پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے اس طرح نکل گئی جیسے پھٹے ہوئے شاپر سے کچرا۔
ڈسکہ کے الیکشن پر بہت شور اٹھا تھا۔ پھر بھی خیال یہی تھا کہ دوچار دن کا رانڈ رونا رہے گا پھر سب، سب کچھ بھول بھال جائیں گے۔ حیرت اس وقت ہوئی جب رات کے تین بجے ڈسکہ سے آنے والی اطلاعات کا الیکشن کمیشن نے ازخود نوٹس لیا اور پسندیدہ نتائج حاصل کرنے والوں کی راہ میں حائل ہوگیا۔ دم تحریر الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی سامنے آ گیا ہے جس میں این اے 75ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی وجہ سے ضمنی انتخاب کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ پی ڈی ایم کے مطالبے کو راہ تو ملی۔ الیکشن کمیشن پر چھائی دھند چھٹنے کے آثار تو ظاہر ہوئے۔ مقتدر قوتوں کے حق میں دھاندلی ہو اور وہ کالعدم قراردے دی جائے، قیامت ہے۔ 2018 کے انتخابات میں پورا آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بفضل۔ ہر طرح خیریت رہی۔ بعد کے الیکشن میں بھی الیکشن کمیشن کی آنکھیں لال انگارہ سی رہیں۔ اب ایسا کیا ہو گیا!!
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمار
کیا بات ہوگئی جو خدا یاد آگیا
پی ٹی آئی نے ڈسکہ میں وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی جس کے خلاف پشتو میں بہت برا لفظ بولا جاتا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی کے ہزار عذر تراشے جاتے رہے ہیں لیکن موسم کی کارفرمائی! دھند کا عذر! ایسی ڈھٹائی، ایسی بے خوفی! امیر مینائی یاد آگئے
تیر پر تیر لگائو تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے میری جان جگر کس کا ہے
مقتدر حلقوں کی پشت پناہی کے سبب اب تک تحریک انصاف کی حکومت کا حال یہ تھا:
خوف میزان قیامت نہیں مجھ کو اے دوست
تو اگر ہے میرے پلے میں تو ڈر کس کا ہے
تاہم اب ایسا لگ رہا ہے کہ ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں۔ عمران خان حکومت کی کارکردگی سے وہ بھی مایوس لگنے لگے ہیں جو اس کی بیمار رگوں میں نشاط وطرب کی بحالی کے انجکشن لگاتے رہے تھے۔ عمران خان کی بھر پور کارکردگی کا سکہ کرکٹ میں تو چلا شادی اور حکومت کے میدانوں میں نہیں چل سکا۔ وہ حلقے جو عمران خان کو 12.9999999 یعنی تیرا ہونے لگا ہوں جیسے پیغامات بھیجا کرتے تھے اب ان سے کچھ دور دور لگ رہے ہیں۔ ایسا دکھ رہا ہے سب ایک اور تبدیلی کے لیے بے تاب ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی پے درپے شکست کے بعد قیاس کیا جارہا ہے کہ اب پی ٹی آئی سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی جس کے بعد قومی اسمبلی میں بھی اس کے لیے قانون سازی ممکن نہیں رہے گی۔ صوبوں میں حکومت کو ویسے ہی گورننس کے مسائل درپیش ہیں۔ قانون سازی کی سکت نہ رہنے کے بعد حکومت اس بازار میں آجائے گی جہاں اس کی آواز کوئی نہیں سنے گا۔
میں بولا بادشاہو میری اک چھوٹی سی گل سن لو
وہ بولے چھڈو جی کیا گل سنیں بازار کے وچ میں
پی ٹی آئی کے لیے صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ باہر ہی نہیں اندر بھی بغاوت کے آثار واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ شنید ہے کہ خیبر پختون خوا میں وزیراعظم سے ملاقات میں تحریک انصاف کے 14اراکین قومی اسمبلی اور 6اراکین صوبائی اسمبلی موجود نہیں تھے۔ موجودہ ہائبرڈ نظام کی ساکھ کہیں نظر آرہی ہے اور نہ دھاک۔ یہ ہائبرڈ نظام اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کی ساکھ کو بھی دائو پر لگا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس صورت حال کا کریڈٹ بہرحال پی ڈی ایم کو جاتا ہے لیکن فائدہ کیا ہوگا۔ ن لیگ ہم پر مسلط ہوگی یا پی پی۔