الیکشن کمیشن بول پڑا

333

قومی اسمبلی کے حلقے این اے 75 کا ضمنی انتخاب کالعدم قرار دے دیا گیا ہے، قومی تاریخ میں یہ ایک منفرد فیصلہ ہے، آج اور ماضی قریب کی بات چھوڑ دیتے ہیں، تاہم ماضی بعید کی بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے، انتخابات میں دھاندلی کی اپنی ایک تاریخ ہے، مگر منظم دھاندلی اور اقتدار کی قوت کے بل پر ایسا ہونا افسوس ناک پہلو ہے، منظم دھاندلی 1977ء میں ہوئی تھی، بھٹو صاحب کی کابینہ کے سارے وزرراء بلا مقابلہ منتخب ہوگئے، پیپلز پارٹی کے امیدوار حفیظ اللہ چیمہ کے انتخاب کو کالعدم قرار دیا گیا تھا لیکن ملک بھر میں عوامی تحریک شروع ہوئی، اور بھٹو صاحب کی حکومت ہی ختم ہوگئی، الیکشن کمیشن کا حالیہ فیصلہ میں ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی فریق متحد ہو کر آئندہ کے انتخابی بد عنوانی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ الیکشن کمیشن کا تازہ فیصلہ ہماری توجہ چند مزید امور کی طرف بھی مبذول کراتا ہے ڈسکہ میں کس جانب سے بد عنوانی کی گئی؟ مگر اصل اور پریشان کن بات یہ ہے کہ سوشل اور ریگولر میڈیا کی بیداری کے باوجود ہماری سیاسی کلاس میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انتخابی بد عنوانی پر یقین رکھتے ہیں، تمام تر تحفظات کے باوجود یہ بات تسلیم کرلیں کہ تحریک انصاف نے انتخابی بدعنوانی کے خلاف ماضی میں بڑا مضبوط موقف اختیار کیا تھا لیکن اس نے جو علم اٹھایا تھا اسے ڈسکہ میں سرنگوں کردیا ہے وہاں ضمنی انتخاب کے بعد جس قسم کا لب و لہجہ اختیار کیا گیا، وہ بہت بڑا سوال ہے۔
ڈسکہ ضمنی انتخاب کے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ حلقے کے عوام کی بیداری اور سیاسی کارکنوں کی حوصلہ مندی اور ان کا دلیرانہ تحرک، یہ طرز عمل قومی سیاسی زندگی میں یہ ایک نیا رجحان ہے یہ حوصلہ افزاء ہے، ماضی میں کراچی میں ایسا ہوا کرتا تھا کہ ٹھپے لگائو، اور لگاتے ہی چلے جائو، اس طرح ’’ہزاروں کی آبادی سے لاکھوں ووٹوں کی برتری‘‘ مل جاتی، یہ ایسے حقائق تھے جن سے سب واقف تھے لیکن آنکھیں بند کر لیتے تھے ڈسکہ میں یہ سب کچھ ہوا مگر ذرا مختلف طریقے سے، ہمارے سیاسی کارکن میں یہ ہمت کیسے پیدا ہو گئی؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ سیاسی کارکن کو یہ ہمت سیاسی قیادت کے ہمت پکڑنے سے ہوئی مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے اپنے کارکن سے دو باتیں کہی تھیں، یعنی ووٹ بھی دینا ہے اور اپنے ووٹ کا پہرہ بھی دینا ہے بس اب ووٹ کا پہرہ دیا تو نتیجہ بھی مل گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین سینیٹر راجا محمد ظفر الحق سے لے کر مسلم لیگ کے عام کارکن تک سب اب ووٹ کے پہرے دار بن چکے ہیں، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا بھی داد کے مستحق ہیں، وہ اس منصب پر موجود ہونے کے باعث ووٹ کے سب سے بڑے پہرے دار ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے، آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت تھی، مگر کسی وزیر کی مجال نہیں تھی کہ وہ سرکاری وسائل کے ساتھ آزاد کشمیر میں داخل ہوجائے، تب سکندر سلطان راجا آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری تھے، کوہالہ پل کے پار کوئی وزیر نہیں جا سکتا تھا 2015ء میں گلگت و بلتستان کونسل کے انتخابات ہورہے تھے تب بھی سکندر سلطان راجا ہی وہاں ذمے دار منصب پر تھے، وفاقی حکومت کے وزیر من مانی چاہتے تھے لیکن سکندر سلطان راجا نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا جب دیکھا کہ مجبور کیا جارہا ہے تو وہاں سے اپنے تبادلے کی درخواست دے دی، وفاق میں وہ سیکرٹری پٹرولیم بھی رہے اس وقت شاہد خاقان عباسی ان کی وزارت کے وزیر تھے، تب بھی وہی بات کرتے تھے اور رائے دیتے تھے اور حق بات کرتے تھے، اب بھی ان سے کہا گیا کہ کہ پی ڈی ایم کے موقف کی تردید کریں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، مگر حکومت کی یہ بات انہوں نے نہیں مانی۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے لیے وفاقی حکومت نے صدارتی ریفرنس عدالت عظمیٰ بھجوایا، عدلیہ نے الیکشن کمیشن کی رائے مانگی، انہوں نے عدالت عظمیٰ میں بیان داخل کرایا کہ خفیہ بیلٹ کو ترک کردینا آئین کی خلاف ورزی ہوگی حکومت نے یہ بھی تجویز دی کہ ضمنی انتخابات جس طرح حکومت ان کے لیے تاریخ دے اسی طرح کرادیے جائیں لیکن یہ بات بھی نہیں مانی، اب ایک معاملہ ان کے رو برو پیش ہوا این اے 75 سے پولنگ عملے کے اغواء کے بارے میں تو الیکشن کمیشن نے پریس ریلیز جاری کی الیکشن کمیشن کے ردعمل سے ظاہر ہوا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اب این اے 75 میں ازسرنو انتخابات ہونے جارہا ہے جب وہاں دوبارہ الیکشن ہوگا تو مقامی انتظامیہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب نہیں ہوگی۔ یہ فیصلہ آئندہ انتخابات اور جمہوریت کے لیے الیکشن کمیشن کا لائحہ عمل سامنے لاچکا ہے کیونکہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ دھاندلی انتخابات کے ماتھے کا کلنک کا ٹیکہ ہے اب کہیں بھی جھرلو نہیں چلے گا، حکومت کو چاہیے کہ فیصلہ تسلیم کرے تاکہ کوئی بھی جھرلو کی جانب نہ جائے، اب الیکشن کمیشن بول پڑا ہے، لہٰذا دھند ہو یا دھاندلی اب نہیں چلے گی، ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کی رٹ نظر آئی گی… اور اللہ کرے کہ بلدیاتی انتخابات بھی ایسے ہی ہوں۔