مزید چار ماہ کے لیے گرے لسٹ

398

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حالیہ ورچوئل اجلاس میں جو 22 سے 25 فروری تک پیرس میں ہوا، پاکستان کو آئندہ چار ماہ کے لیے گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیوں کہ پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے جو 27 نکاتی پروگرام دیا گیا تھا اس میں سے ابھی 3 نکات پر اجلاس کے خیال میں کام پورا نہیں ہوا۔ اس لیے جون 2021ء تک کا وقت دیا گیا ہے۔ جن تین نکات پر پاکستان کو کام پورا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اُن مین سے نمبر ایک یہ ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کا عملی مظاہرہ کریں کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق جرائم کی نشاندہی کرکے نہ صرف اس کی تحقیقات کررہے ہیں بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کررہے ہیں۔ دوسرے نمبر کا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اس بات کو یقینی بنائے کہ دہشت گردوں کی مالی امداد میں ملوث افراد اور تنظیموں کے خلاف جو قانونی کارروائی کی جائے اس کے نتیجے میں انہیں سزائیں ہوں اور جرائم کا مکمل خاتمہ ہو۔ تیسرے یہ کہ اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد دہشت گردوں اور ان کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف مالی پابندیاں لگائی جائیں نا کہ انہیں فنڈ اکٹھا کرنے سے روکا جاسکے۔
پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت (Terror Financing) کے شواہد ملنے پر ایف اے ٹی ایف نے جون 2018ء میں گرے لسٹ کے مالک کی فہرست میں شامل کردیا تھا اور 27 نکات پر مشتمل ایک پروگرام پاکستان کے حوالے کردیا تھا۔ پاکستان کے دشمن ممالک خصوصاً بھارت نے اس پر شادیانے بجائے تھے اور اس کے بعد مسلسل کوشش کی کہ بلیک لسٹ کردیا جائے۔ پچھلے سال یعنی فروری 2020ء تک پاکستان نے 13 نکات پورے کردیے تھے اور اس طرح بلیک لسٹ میں جانے کا امکان ختم ہوگیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو موقع دیا گیا کہ وہ باقی نکات جلد از جلد پورا کرے اس طرح اکتوبر 2020ء تک 27 میں سے 21 نکات پر عملدرآمد ہوچکا تھا اور حالیہ میٹنگ سے پہلے بقیہ6 نکات کے بارے میں پاکستان پہلے ہی رپورٹ جمع کراچکا تھا اور حکومت امید ظاہر کررہی تھی کہ اس اجلاس میں اسے گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا۔ لیکن تین نکات کے باعث پاکستان کو چار ماہ کا عرصہ اور دیا گیا ہے جب کہ ایف اے ٹی ایف کے چیئرمین مارکوس نے یہ واضح کیا کہ بلیک لسٹ میں ڈالنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ایف اے ٹی ایف (FATF) نام کا یہ بین الحکومتی ادارہ دنیا کے سات ترقی یافتہ اور امیر ترین ممالک، امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، جرمنی، فرانس اور کینیڈا کی تجویز پر 1989ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا سے سرد جنگ ایک انتہائی گرم جنگ کے بعد ختم ہوچکی تھی۔ روس جیسا سپر پاور ملک چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم ہورہا تھا اور دنیا میں امریکا بہادر کے نام سے ایک ہی سپر پاور تھی۔ اپنے قیام کے وقت اس ادارے کا مقصد یہ تھا کہ منی لانڈرنگ کو ختم کیا جاسکے۔ لیکن جب 2001ء میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اس ادارے نے اپنے مقاصد میں دہشت گردی کی مالی معاونت کو بھی شامل کرلیا۔ یہ ادارہ جس کا ہیڈ کوارٹر فرانس کے شہر پیرس میں ہے۔ دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت جیسے جرائم کی نگرانی کرتا ہے اور جہاں ان کے شواہد یا ثبوت ملیں انہیں لمبی شرائط کا مطالبہ تھمادیتا ہے اگر وہ ممالک ایف اے ٹی ایف سے تعاون کریں اور اپنے ملک سے ان چیزوں کے خاتمے کے لیے تیار ہوں تو انہیں گرے لسٹ میں شامل کردیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممالک ایف اے ٹی ایف کی مکمل نگرانی میں رہیں گے اور اگرکوئی ملک اس معاملے میں عدم تعاون کرے اور شرائط کو پورا کرنے سے انکار کردے تو وہ بلیک لسٹ قرار دے دیا جاتا ہے ایسا ملک سخت مالی اور معاشی دبائو میں جاتا ہے اور اس کا دنیا سے رابطہ ختم ہوجاتا ہے۔
منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت گھنائونے جرائم ہیں۔ منی لانڈرنگ اگر آسان ہو تو ملک میں کرپشن بڑھ جاتی ہے کیوں کہ کرپشن کرنے والوں کا یقین ہوتا ہے ان کا غیر قانونی پیسہ بڑی آسانی سے قانونی بنایا جاسکتا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اگر ملک میں اسمگلنگ کا سامان فروخت کرنا مارکیٹ میں آسان ہو تو اسمگلنگ بڑھ جاتی ہے اگر چھینا ہوا موبائل فون آسانی سے بک جائے تو موبائل چھیننے کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں۔ لیکن اگر ان جرائم کی آڑ میں کچھ ممالک پر پابندیاں لگائی جائیں اور دوسرے ملکوں کو ہر قسم کی دہشت گردی کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو دنیا میں امن اور سکون کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔