پاک بھارت تعلقات کا نیا منظر؟

295

پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز نے ہاٹ لائن رابطے کے قائم کردہ طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا اور کنٹرول لائن اور دیگر تمام سیکٹرز کی صورتِ حال کا آزاد، اچھے اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا۔ فریقین نے اس بات پر زور دیا کہ کسی بھی طرح کی غیر متوقع صورتِ حال اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے موجودہ ہاٹ لائن رابطے کے طریقہ کار اور بارڈر فلیگ میٹنگز کا استعمال کیا جائے گا۔ بھارت اور پاکستان کی فوج کے ڈی جی ایم اوز کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک اچھے ماحول میں کنٹرول لائن کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سرحدوں پر پائیدار امن کے لیے ڈی جی ایم اوز نے ایک دوسرے کے خدشات، جو پُرتشدد واقعات کا باعث بنتے ہیں، کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ فریقین نے باہمی معاہدوں، سمجھوتوں اور ایل او سی سمیت دیگر سیکٹرز پر سیز فائر پر 24 اور 25 فروری کی درمیانی رات سے سختی سے عمل درآمد پربھی اتفاق کیا۔ یہ پیش رفت سوچنے، سمجھنے اور ان معاملات پر گہری نظر رکھنے والوں کے لیے حیران کن ہے، کیوںکہ اس سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ویسے تو تاریخی طور پر ہی خراب رہے ہیں، لیکن جب فروری 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی دستے پر ہونے والے مجاہدین کے حملوں کے بعد بھارت نے حملے کا ذمے دار براہِ راست پاکستان کو ٹھیرایا تھا تو اس میں شدت بڑھ گئی تھی، بعد میں بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی، جس کے بعد پاکستانی لڑاکا طیاروں نے بھارت کے مگ 21 جنگی طیارے کو مار گرایا، اور بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن ورتھمان کو گرفتار کرلیا۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ دو دن بعد ہی امریکی مداخلت پر اُسے رہا کردیا گیا۔ اُس وقت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان پر گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے کے لیے نہ تو کوئی دبائو تھا اور نہ ہی کوئی مجبوری تھی۔ انہوں نے امریکی دبائو کی بھی تردید کی تھی۔ پھر بعد میں 5 اگست 2019ء کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خودمختار آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد دونوں ملکوں میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی اور یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہا، اور اب جب فروری میں ہی بھارتی فضائیہ کے طیاروں کی سرحدی مداخلت اور اس پر ہزیمت اٹھانے کو دو برس مکمل ہورہے ہیں تو ڈائریکٹرجنرل ملٹری آپریشنز کا ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا ہے۔ اس خبر کے سامنے آنے کے فوراً بعد ہی وائٹ ہائوس کی ترجمان جین ساکی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان فائربندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں وسیع تر امن اور استحکام ہم سب کے مفاد میں ہے اور ہم دونوں ملکوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس پیش رفت کو مزید آگے بڑھائیں۔ ترجمان وائٹ ہائوس کا مزید کہنا تھا کہ ایل او سی پر جنگ بندی جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے مثبت پیش رفت ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس نے بھی ایل اوسی جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں معاہدہ مثبت قدم ہے، امید ہے دونوں ملکوں میں مزید بات چیت کی راہ ہموار ہوگی۔
چونکہ پاکستان کے ہر معاملے میں امریکی مداخلت موجود ہے، اس لیے اِس اہم پیش رفت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، لوگ اس کے پیچھے بھی امریکی کردار دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان آخری جنگ کی بات ہورہی تھی تو یہ مذاکرات اور رابطے چہ معنی دارد؟
اس خبر کے پس منظر میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پسِ پردہ رابطے چل رہے ہیں اور امریکا ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار اداکرتا نظر آرہا ہے، وزیراعظم عمران خان کو سری لنکا کے دورے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھارتی اجازت کو بھی اسی پس نظر میںدیکھا جارہا ہے۔
بھارت کے سینئر صحافی سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ ’’تعلقات بہتر ہونے کے کافی اشارے مل رہے ہیں، کووڈ۔19 پر سارک ممالک کی جو ویڈیو کانفرنس بلائی گئی تھی اُس میں مودی نے عمران خان کو بھی دعوت دی تھی‘‘۔ اسی طرح یہ خبر بھی ہے کہ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی امور معید یوسف اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے درمیان بھی ملاقات ہوئی ہے، اس پر معید یوسف نے کہا ہے کہ بیک چینل ڈپلومیسی سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے بھی کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ سیزفائر مفاہمت نئی نہیں، بلکہ یہ 2003ء کے اقدامات کا تسلسل ہے۔ اس پس منظر میںیہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں، یہ اس خطے اور دونوں ملکوںکی معاشی ضرورت بھی ہے، اور اسی لیے مذاکرات سے کوئی بھی انکار نہیںکرتا، لیکن ان مذاکرات کے شروع ہونے کا کوئی اصول و ضابطہ ہی نہیں ہے، بھارت جب چاہتا ہے امریکا کے دبائو میں مذاکرات شروع کردیتا ہے، جیسے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کچھ ہوا ہی نہیں ہے، اور جب بھارت پر سے دبائو ہٹ جاتا ہے تو وہ مذاکرات کو لات مارکر الگ ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس پس منظر میں ہونے والی چہ میگوئیاں اور باتیں کچھ غلط بھی نہیں ہیں۔ بھارت کے معاملے میں ہماری تاریخ اسی طرح کی تردیدوں سے بھری پڑی ہے۔ اس سے قبل ا کتوبر 2020ء میں بھی ڈاکٹر معید یوسف نے بھارت کی ایک نیوز سائٹ ’وائر‘ کو دیے گئے انٹرویو میں خود کہا تھا کہ ’’بھارت کی جانب سے ہمیں مذاکرات کی پیش کش ملی ہے، اور ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، مگر مشروط‘‘۔ شرط یہ بتائی گئی کہ مذاکرات میں کشمیریوں کو شامل کیا جائے، کشمیر میں فوجی محاصرہ ختم کیا جائے، تمام سیاسی قیدی رہا کیے جائیں اور ڈومیسائل کا نیا قانون واپس لیا جائے۔
اس ضمن میں ہم پھر یہی کہتے ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہئیں، لیکن پہلے قوم کو یہ بتایا جائے کہ کیا بھارت نے معید یوسف کی باتیں مان لی ہیں؟ بھارت پاکستان کے خلاف جو سازشیںکررہا ہے، ہمارے خلاف افغانستان کو استعمال کررہا ہے، وہاں سے دہشت گرد بھیج رہا ہے، بلوچستان میں بھی عدم استحکام پیدا کررہا ہے، تو کیا بھارت نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ وہ یہ سب نہیںکرے گا؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر ہم کسی بھی وجہ سے بھارت کے ساتھ مذکرات کرنے جارہے ہیں تو قوم کو اس کی تفصیلات کے ساتھ اعتماد میںلیا جائے، اور یہ بتایا جائے کہ ہم آخر کس بنیاد پر مذاکرات کرنے جارہے ہیں؟ کیا اس کی کوئی ایسی معقول بنیادیں ہیں جو ہمارے قومی تشخص اور قومی مفادات کے تابع ہوں؟ کیونکہ جن مذاکرات یا رابطوں کے پیچھے امریکا جیسا ملک موجود ہو جس کے بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات اور معاہدے ہوں، خدشہ ہے ایسے مذاکرات کارِلاحاصل ہی ثابت ہوں گے۔