چین،ایغور کے بعد دوسری مسلم اقلیت بھی عتاب کا شکار

196

بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) چین نے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے بعد اب جنوبی صوبے ہنان میں آٹسلز نامی مسلمانوں کی ذہنی تربیت کا پروگرام شروع کردیا۔ اس اقدام کا مقصد اقلیتوں کو اپنے طور طریقوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا ہے، تا کہ حکمراں کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) اپنا اثر و رسوخ قائم رکھ سکے۔ ہنان ایک جزیرہ ہے، جہاں 10ہزار مسلمان آباد ہیں۔ بیجنگ حکومت نے شہریوں کو اپنے طور طریقوں کے مطابق ڈھالنے کے عمل کو ’’سینی سائزیشن ‘‘ کا نام دیا ہے،جسے امریکا اور عالمی برادری نسل کشی کے مترادف قرار دیتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق آٹسلز مسلمانوں کے خلاف جاری حالیہ مہم کا مقصد مہم کا مقصد ملک سے اسلامی ثقافت کو ختم کرنا ہے۔ 2018ء میں سینی سائزیشن آف اسلام نامی مہم کے دوران مقامی حکومتوں نے مخصوص احکامات جاری کیے تھے، جن میں اسلامی اسکولوں کی بندش، مساجد پر چینی پرچم کی تنصیب، اسلامی عمارات کو ختم کرنا شامل تھا۔ اس دوران 18سال سے کم عمر بچوں کو مساجد میں تعلیم دینے پر بھی پابندی عائد کی گئی اور مسلمانوں پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ اپنی شناخت اور پتاسرکاری محکموں میں درج کروائیں۔ جہاں تک آٹسلزکا تعلق ہے تو ان کی اکثریت ساحلی شہر سنیا میں آباد ہے۔ وہ چامک زبان بولتے ہیں، جو ویتنام اور کمبوڈیا میں بولی جانے والی زبانوں سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہ لوگ صدیوں پہلے انہی ممالک سے نقل مکانی کر کے وہاں آباد ہوئے تھے۔ آٹسلز کو ہنان ہوئی بھی کہا جاتا ہے اور یہ چین کے ان چند غیر تسلیم شدہ نسلی گروہوں میں سے ایک ہے، جنہیں حکمراں جماعت ایک بڑی نوع آبادی کی مہم کے ساتھ جوڑتی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق آٹسلز برادری نے چین کے اسلامی دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ آٹسلز کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ 2019ء میں شروع ہوا تھا۔ اس دوران وہاں کڑے قوانین نافذ کیے گئے،جن میں خواتین کے حجاب کرنے پر پابندی بھی شامل ہے۔ ضوابط کی رو سے مساجد کی نگراں کمیٹیوں میں سی سی پی کے ارکان کو بھی شامل کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ مساجد کی دیواروں پر حکمراں جماعت کے سیاسی نعرے آویزاں کیے گئے ہیں۔