معاشی بحرانوں سے نجات مگر کیسے

517

1845 میں سلائی مشین الیس ہووے کی ایجاد ہے۔ اس نے جو مشین بنائی تھی اس کی سوئی میں دھاگا ڈالنے کے لیے ابتداً نوک کی دوسری طرف چھید بنایا تھا جیسا کہ عام طور پر ہاتھ کی سوئیوں میں ہوتا ہے۔ صدیوں سے انسان سوئی میں اسی طرف چھید کرتا آرہا تھا۔ سلائی مشین بناتے وقت اس نے بھی اسی طرف سوئی میں چھید بنایا لیکن اس کی مشین صحیح طرح سے کام نہیں کررہی تھی۔ ایک عرصے سے وہ اس معاملے میں پریشان تھا یہاں تک کہ اس نے ایک خواب دیکھا۔ خواب نے اس کا مسئلہ حل کردیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک وحشی قبیلے نے اسے پکڑ لیا۔ سردار نے حکم دیا کہ وہ چوبیس گھنٹے میں سلائی مشین بنا کر تیار کرے ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ اس نے کوشش کی لیکن وہ مقررہ مدت میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ وقت پورا ہوگیا قبیلہ کے لوگ اسے مارنے کے لیے آگے بڑھے۔ ان کے ہاتھ میں نیزے تھے۔ ہووے نے دیکھا کہ نیزوں کی نوک پر ایک سوراخ تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے اس کی آنکھ کھل گئی۔ ہووے کو مسئلے کا حل مل گیا۔ اس نے بھی سوئی کی نوک میں چھید کیا۔ اس میں دھاگا ڈالا۔ مشین بخوبی کام کرنے لگی۔
ہووے کا مسئلہ یہ تھا کہ مسلسل ناکامیوں کے باوجود وہ مروجہ طریقے سے ہٹ کر دوسرا طریقہ اپنانے اور آزمانے کی طرف اس کا دھیان نہیں جارہا تھا۔ سرمایہ داریت کے معاملے میں بھی کئی صدیوں سے دنیا کارویہ یہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ ریاستی ادارے، سیاست اور سماجی اقدار برباد ہورہی ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ ریاست اور حکمران طبقہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے عوام اور ان کے مفادات کو بے دریغ قربان کررہا ہے۔ منافعوں کا حصول استیصال سے اس بری طرح مربوط ہوگیا ہے کہ مختلف طبقات میں بڑھتی ہوئی بے چینی اب احتجاج کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ احتجاج کہیں اوکیو پائے وال اسٹریٹ کی شکل میں ہے، کہیں یلو شرٹ، کہیں کسان مارچ اور کہیں سرکاری ملازمین کے احتجاج کی صورت میں۔ اس احتجاج کے لیے متاثرین نے سیاسی جماعتوں اور حکومت مخالف جماعتوں کا سہارا لینے کے بجائے خود براہ راست ایکشن کیا۔ یہ احتجاج اس جمہوری نظام پر عدم اعتماد تھا جس میں عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جماعتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت انتہائوں کو پہنچ رہی ہے۔ لیکن کہیں بھی کوئی دوسری طرف دیکھنے کے لیے عملی طور پر تیار نہیں۔
پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت کو زندہ رکھنے کے لیے مہنگائی میں بے محابا اضافہ، بجلی اور تیل کی قیمتوں میں ہفت واری اضافہ، بے روزگاری کے طوفان، نت نئے ٹیکس اس لیے مسلط کیے جارہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ استیصال کی علامت آئی ایم ایف کے قدموں میں قربانی کے نذرانے پیش کیے جاتے رہیں تا کہ یہ دیوتا حکمرانوں کا اقبال بلند کرتا اور مدت اقتدار میں اضافہ کرتا رہے۔ وہ حکومت جو کرپشن کے خاتمے کے نام پر برسراقتدار آئی تھی اس کی نصف مدت میں کرپشن کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ حکمران اپنی عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے جس طرح بے حساب قرض لے رہے ہیں اور قسطوں کی ادائیگی کے لیے عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے لیے بے تاب ہیں وہ جلد ہی خوفناک دھماکوں کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔
اپوزیشن جماعتیں خواہ وہ پی ڈی ایم کی صورت میں ہوں یا کسی اور چولے میں وہ بھی اسی نظام زر کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے کو ننگا کرتے سیاست دان خواہ وہ حکمران جماعت کا حصہ ہوں یا اپوزیشن کا اسی نظام کے گماشتے اور مقرر کردہ ایجنٹ ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو قبر میں اتارنے کے بعد برسراقتدار آنے کی صورت میں پی ڈی ایم مسائل کا کوئی متبادل حل پیش نہیں کرسکے گی۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی ڈی ایم کو بھی اسی نظام کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے۔ ممکن ہے وہ اس بھونڈے انداز میں اس نظام کی دلالی نہ کریں جیسا کہ عمران خاں کی حکومت کررہی ہے لیکن خوشنودی اور قربت ان کے لیے بھی اسی نظام کی مقدم ہوگی۔
پا کستان میں عوام کو فوجی یا سویلین حکومت کی لال بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی تو جمہوریت کو تمام مشکلات کے حل کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا۔ جمہوریت آئی تو خرابی کا باعث زرداری صاحب کی کرپشن قرار پائی۔ نواز شریف کو اقتدار میں آئے تو سسلین مافیا کے نمائندے ٹھیرائے گئے۔ صادق اور امین عمران خاں سلیکٹ کیے گئے۔ اب وجہ خرابی یہ بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایک ہائبرڈ حکومت ہے جس کے پیچھے اصل اقتدار فوج کا ہے۔ فوج کو نظام حکومت سے بے دخل کردیا جائے تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اس پرفریب جدوجہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے آسیب کاذکر کرنے کی کسی میں ہمت نہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ امریکا کے خلاف جانے کے لیے کوئی تیار نہیں جو جنم دن سے لے کر آج تک اس ریاست پر مسلط ہے کیونکہ اقتدار کا حصول اور دوام امریکا کی گڈ بک میں رہنے میں پوشیدہ ہے۔ آج مدینے کی ریاست کا نام لے کر عمران خان آئی ایم ایف کے سودی قرضے کے حصول کے لیے ناک رگڑ رہے ہیں کل پی ڈی ایم کے زعما اس صف میں کھڑے ہوں گے۔ امریکا کی طرف سے دھتکارے جانے کے بعد وہ بھی سعودی عرب اور چین کی غلام گردشوں میں چکر کاٹ رہے ہوں گے۔ ذلت کے اس سفر میں تمام تر ناکامیوں کے باوجود سب اسی چھید سے دھاگا گزارنا چا ہتے ہیںجس سے آج تک درست نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔
مسئلے کا حل سرمایہ دارانہ نظام کے چھید میں داخل ہونے میں نہیں بلکہ سوئی کی نوک کی طرف موجود اسلامی نظام میں ہے جس سے گزر کر ہی ریاست، حکومت اور سماج کی درست بُنت ممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ یہ ہے کہ جب یہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو دنیا کی دولت ہر طرف سے کھنچ کھنچ کر چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر کے کاروبار پر جن کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے اور باقی دنیا کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ان مٹھی بھر افراد کی دولت میں اضافے کے لیے ان کی ملازمت کرے یا ان کے ایجنٹ کا کردار ادا کرے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر میں دولت کا توازن درہم برہم کردیا ہے۔ اسلامی نظام میں دولت کی گردش خرید وفروخت کے جائز تبادلے پر مبنی ہے جب کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد سود ہے۔ جو تاریخ انسانی کے ہر دور میں غریبوں کا خون چوسنے اور کمزور کو مزید کمزور کرنے کے سوا کوئی نتیجہ نہ دے سکا۔ دولت چند گھروں کی باندی بن کررہ جاتی ہے جو جس طرح چاہتے ہیں دنیا میں دولت کی تقسیم کے نظام کو گھماتے پھراتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے جب کہ اسلام میں افریقا جیسے خطے میں لوگ زکوۃ کی رقم لیے لیے پھرتے تھے اور کوئی لینے والا نہیں ہوتا تھا۔
اسلام انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن ایسی پا بندیوں کے ساتھ کہ دولت کی تقسیم کا توازن نہ بگڑے۔ اسلام دولت کے یک طرفہ بہائو کو روکنے کے لیے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے اور ایسے تمام کاروبار اور طریقے قانوناً ممنوع قراردیتا ہے جن میں ایک کا منافع اور بہت سے لوگوں کا نقصان ہو جیسے سود، جوا، سٹہ وغیرہ۔ اسلام سود کی تمام شکلوں کو ناجائز اور حرام قرار دیتا ہے کیونکہ سود کا نظام ایک یا چند افراد کے منافع کو یقینی بنانے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ سود کا مطلب ہے سرمایہ دار کا یقینی منافع، اس کو ہر خطرے اور نقصان سے محفوظ کرنا۔ دنیا کے ہر کاروبار میں نفع اور نقصان ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن سود وہ کاروبار ہے جس میں سرمایہ دار کے خسارے اور گھاٹے کا کوئی امکان نہیں۔ اگر سود لینے والا قرض دار کنگال بھی ہوجائے تو اس کا گھر اور اثاثے بیچ کر سرمایہ دارکو نقصان سے بچایا جاتا ہے۔ دنیا میں انقلاب کے لیے، افلاس، گداگری اور دیگر معاشی جرائم کے خاتمے کے لیے زکوۃ کے نظام کے سوا کوئی نظام موجود نہیں جو دولت کے ارتکاز کو روک کر اس کا بہائو پیدا کرسکے۔ وہ بہائو جس کا رخ معاشرے کے کمزور افراد کی طرف ہو۔ تیرہ صدیوں تک یہ نظام دنیا میں قائم رہا اور دنیا کو کسی بڑے معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔