ایک گزارش

866

ایک صاحب نے پوچھا ہے کہ فرد کی اصلاح کا کام بہت سست رفتار ہوتا ہے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی ایسا نظام نہیں ہونا چاہیے جو اجتماعیت میں اصلاح کا کام کرے؟ پہلی گزارش یہ ہے کہ دونوں کام، بہت ضروری ہیں۔ فرد کی اصلاح کو مقصود بنائے بغیر معاشرے کو بھلائی پر نہیں کھڑا کیا جا سکتا، اور بالکل اسی طرح سوسائٹی کو حق اور خیر کے اصول پر قائم کرنے یا قائم رکھنے کا کام ایک بے نفس انقلابی جذبے اور ایک مجاہدانہ یکسوئی کے ساتھ انجام دیتے رہنے کے بغیر فرد کی اصلاح کا عمل یا تو شروع ہی نہیں ہوگا یا پھر ناقص رہ جائے گا۔ اور یہ نقص ایسا نہیں ہوگا کہ فرائض پر عمل کر لیا اور مستحبات رہ گئے۔ مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ سوسائٹی سے لا تعلق رہتے ہوئے فرد کا تزکیہ اس کے اندر ایک نہایت غلط اطمینان پیدا کر دیتا ہے۔ وہ اطمینان کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ مستحبات پر عمل کر لیا ہے، فرائض پر بھی کبھی کر ہی لیں گے۔ اس بات کو کوئی غلط مفہوم نہ دیا جائے کہ فرد کی اصلاح اور تزکیے کا لازمی نتیجہ یہ ہے۔ بلکہ اس بات کو ایسے سمجھا جائے کہ اجتماعیت کی تشکیل اور تعمیر اگر بندگی کی قوت سے نہ کی جائے تو وہ افراد جو اس اصول سے لاتعلقی اختیار کر کے اپنے باطن کی صفائی کے لیے مجاہدات کرتے رہتے ہیں ان کے بڑے دینی تصورات ادھورے نہیں بلکہ مسخ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ایسے انفرادیت پسندوں کا خدا بھی خیالی ہے اور بندہ بھی۔ پوری بات یہ ہے کہ میری باطنی اصلاح اور تزکیۂ نفس کا محفوظ آغاز اسی وقت ہو گا جب میں اس تزکیے کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے اجتماعی نظام کو چلانے والی مشین کے تمام چھوٹے بڑے پرزوں کی اس نظر سے نگہداشت کروں گا کہ بندگی کی چادر بننے کا عمل رکنے نہ پائے۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ انسان ایک سماجی وجود ہے۔ اس میں تبدیلی کا عمل سماجی تبدیلی سے مشروط ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ باہر کی دنیا میں سرکشی کے جھکڑ چل رہے ہوں اور اندر کی دنیا اللہ کی یاد سے ٹھنڈی اور شانت رہے۔ لیکن دوسری بات بھی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فرد اگر بندگی کے ذہنی، قلبی اور عملی معیارات پر پورا نہیں اُترتا تو باہر کی دنیا میں بھی کلمۃُ اللہ کے غلبے کی ہر پر شور اور پر زور کوشش لایعنی ہے۔ یہ ادھورا پن بھی تمام دینی تصورات کو بگاڑ سکتا ہے۔ تو برخوردار، خود کو کلمۃُ اللہ کے جھنڈے کے سائے میں لاؤ پھر اس جھنڈے کو تھام کر باہر نکلو۔ حق کو خود پر غالب کیے بغیر دنیا پر اس کے غلبے کی تحریک ہزاروں برس بھی چلتی رہے تو بے ثمر ہی رہے گی۔ اس سلسلے میں ایک عرض کرنی ہے، امید ہے کہ مفید ہو گی۔
خدمت ِ دین کے لیے اٹھنے والی تمام دعوتوں اور تحریکوں کو ایک دوسرے کا ہم کار ہونا چاہیے۔ تبلیغی جماعت سیاسی تحریک نہیں چلا سکتی، یہ اس کے مزاج میں بھی نہیں ہے اور اس کے مقاصد سے بھی لگّا نہیں کھاتی۔ یعنی انہیں سیاسی معاملات میں پڑنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ درست لائحۂ عمل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں سیاسی جد وجہد کو کمتر درجے کی چیز بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس جماعت کے لیے یہی بہتر ہے کہ بعض دینی کاموں میں اپنی محدودیت کا ادراک رکھے اور اس کا اقرار کرے۔ پھر چاہے اسی محرومی میں رہنے کو اپنے کام کے لیے بہتر سمجھے۔ تو اگر مسلمانوں کی یہ سب سے بڑی دینی جماعت اپنی بعض محرومیوں کو ظاہر کرے اور کہے کہ اس حد تک کی خدمت کے لیے ہم حاضر ہیں، باقی ضرورتیں فلاں جماعت یا فلاں ادارے سے پوری ہو سکتی ہیں، تو انفرادی تزکیے سے لے کر اجتماعی اصلاح کی اکثر ذمے داریاں زیادہ مربوط اور نتیجہ خیز انداز سے پوری ہوسکتی ہیں۔ اگر آج ہماری سب دینی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ معاونت اور ہم کاری کی حالت میں ہوتیں تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ لیکن ہو یہ رہا ہیکہ جماعت ِ اسلامی نے خود پر واجب کر لیا ہے کہ تبلیغی جماعت سے دور رہنا ہے، تبلیغی جماعت نے خود پر لازم کر لیا ہے کہ تنظیم ِ اسلامی سے دور رہنا ہے، تنظیم ِ اسلامی نے خود کو پابند بنا رکھا ہے کہ خانقاہوں سے دور رہنا ہے۔ یہ محض مثال دے رہا ہوں، ان جماعتوں پر ایسا کرنے کا الزام نہیں لگا رہا۔ لیکن بہرحال یہ دوریاں کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ ان خود ساختہ دوریوں کا نقصان یہ ہوا کہ ہماری شخصی اور سماجی اسٹرکچرنگ کر سکنے والی قوتیں خود ہی افتراق کا شکار ہو گئیں۔ ایسے میں وہ کسی مطلوبہ انفرادیت یا اجتماعیت کی کیا تشکیل کریں گی! تو بھائی مجھے تو یہی دینی لگتا ہے، فطری لگتا ہے، اخلاقی لگتا ہے، غرض ہر پہلو سے صحیح لگتا ہے کہ دین کی تمام ذمے داریاں ہماری بنائی ہوئی کوئی جماعت اور کوئی ایک ادارہ پوری نہیں کرسکتا تا وقتیکہ ساری امت آپس میں مددگاری اور ہم کاری کے چلن اور رویے پر قائم نہ ہوجائے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تقسیم در تقسیم اور ایک دوسرے سے دور ہو جانے کی جتنی بھی وجوہات ہیں، اْن میں سے اکثر مذہبی کیوں ہیں؟ یعنی ہمارے معاشرے کے ٹوٹنے کے زیادہ تر بڑے اسباب مذہبی کیوں ہیں؟ کیا یہ مذہبی ترجمانی کا دعوا کرنے والی جماعتوں اور طبقوں کی نالائقی نہیں ہے کہ ہم دین کے مزاج ِ وحدت ہی سے عملاً منحرف ہوتے چلے جار ہے ہیں۔ اس نالائقی کا اعتراف نہ کیا گیا اور اس سے نکلنے کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو ہم صحیح رخ پر پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکیں گے۔ یہیں لاہور میں ریلوے روڈ کے قریب سکہ بند اہل ِ حدیث کی ایک مسجد ہے، چینیاں والی مسجد۔ اس مسجد میں مولانا ابوبکر غزنوی جمعے کا خطبہ دیتے تھے اور نماز پڑھاتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ باہر گئے ہوئے تھے تو جمعے کا خطبہ کسی اور خطیب نے دیا۔ اس خطیب نے تقریباً سارا وقت امامِ اعظم ابوحنیفہؒ کی تردید اور مذمت میں لگا دیا۔ وہاں کئی حنفی المسلک لوگ بھی آئے ہوئے تھے جو ابوبکر غزنوی صاحب کی وجہ سے اس مسجد میں جمعہ پڑھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے بلکہ اس مسجد کے باقاعدہ نمازی تھے۔ انہیں خطیب کی باتیں بری لگیں، جب غزنوی صاحب واپس آئے تو ان حضرات نے ان سے شکایت کی اور کہا کہ حضرت، ایک بنا بنایا ماحول غارت ہوگیا۔ اب دیکھیے، اگلے ہی جمعے مولانا ابوبکر غزنوی نے جو خطاب کیا وہ سارے کا سارا امام ابوحنیفہؒ کی مدح اور منقبت میں تھا۔ اسی طرح مولانا احمد علی صاحب لاہوری حنفی تھے مگر عیدین کی نماز اہتمام کر کے منٹو پارک میں پڑھا کرتے تھے اہل ِ حدیث امام کی اقتدا میں۔ ذرا اور پیچھے چلے جائیں تو مولانا محمد الیاس خود بھی یہ اہتمام رکھتے تھے اور تبلیغی جماعت کے ذمے داران کو بھی تاکید کیا کرتے تھے کہ بڑے علما اور مشائخ کی خدمت میں اپنی تعلیم و تربیت کی غرض لے کر باقاعدگی سے حاضر ہوا کریں۔ تاکہ یہ خبط نہ پیدا ہوجائے کہ بس ہم ہی ہم ہیں اور ہمیں تبلیغی جماعت سے باہر کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ غرض ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دین کا صحیح ذوق وفہم رکھنے والے حضرات کاموں میں مختلف ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ دینی وحدت کا ماحول بنائے رکھتے ہیں اور اس وحدت میں کسی اختلاف کو رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔ آج کے مقتداؤں کو بھی وہی رویہ اختیار کرنا ہوگا ورنہ دین کی انفرادی اور اجتماعی تاثیرات کا راستہ اسی طرح تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا جائے گا اور دین کے اجنبی پن میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ اللہ وہ وقت نہ لائے۔ آمین۔