مافیا کا رونا کب تک

292

امیر جماعت اسلامی سنیٹر سراج الحق کا یہ ارشاد گرامی حالات حاضرہ کا سب کے بہتر تجزیہ ہے کہ تحریک انصاف نے ناانصافی کی حد کر دی ہے مہنگائی نے عوام سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا ہے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں ان کی سیاست ملک و قوم کی فلاح وبہود کے بجائے چند شخصیات کے تحفظات اور مفادات کے گرد گھوم رہی ہے ان کا یہ کہنا بھی ملک کے سیاسی حالات کے عین مطابق ہے کہ اسمبلیوں اور سینیٹ کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے ملک میں نوٹوں، بوٹوں اور جھوٹوں کی سیاست کا سد ِ باب بہت ضروری ہے، تحریک انصاف کی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے، عمران خان کا یہ کہنا حکومت کے لیے پانچ سال کا عرصہ بہت قلیل ہوتا ہے گویا موصوف اپنی ناکامی کا کھلے عام اعتراف کر رہے ہیں۔
شاید وہ تاحیات حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ کسی حیرت انگیز بات ہے کہ موصوف علی الا علان کہہ رہے ہیں کہ وہ پانچ سال کے عرصے میں ملک و قوم کے لیے کچھ نہیں کر سکتے گویا قوم کو مزید ڈھائی سال تک غربت اور افلاس کے جہنم کا ایندھن بنائے رکھنے پر کمر بستہ ہیں کیوں کہ وہ مافیا کی ہدایات کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہیں رکھتے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کے چینی مافیا پاکستان بنتے ہی وجود میں آگیا تھا شاید موصوف کی یاد داشت بہت کمزور ہے جنرل ایوب کی حکومت سے میاں نواز شریف کی حکومت تک چینی مافیا کا کوئی وجود نہیں تھا خدا جانے عمران خان یہ بات کب سمجھیں گے کہ چینی، آٹا، گھی، پٹرول اور دیگر اشیاء ضرویات کی مہنگائی میں ان کے دوستوں کا ہاتھ ہے جنرل ایوب خاں کے دور میں ڈپو سے چینی فی کلو دو روپے دس پیسے ملتی تھی بازار میں اس کی قیمت دو روپے تھی سو عوام آٹا ڈپو سے اور چینی بازار سے خریدتے تھے۔ یہ معاملہ ڈپو مالکان کے لیے خسارے کا سودا تھا انہوں نے حتجاج کیا تو کسی نے جنرل ایوب خاں کو مشورہ دیا کے بازار میں چینی کی قیمت دو روپے پچھتر پیسے کر دو عوام ڈپو سے چینی خریدیں گے یوں چینی کی قیمت دو روپے پچھتر پیسے ہوگئی وزیراعظم عمران خان آپ نے پچاس روپے کی چینی ایک سو پندرہ روپے کی کر دی اور آپ کا یہ کہنا بھی بڑا حیرت انگیز ہے کہ مافیا بہت طاقتور ہے جنرل ایوب خاں کے دور میں آٹا سولہ روپے فی من تھا اچانک بیس روپے من ہو گیا مگر عوام نے کوئی احتجاج نہیں کیا کیونکہ عوام اس وقت کنگلے نہیں تھے مگر حبیب جالب نے طویل نظم لکھ ڈالی اور عوام کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بیس روپے من آٹا ہے پھر بھی سناٹا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے پچاس روپے بکنے والی چینی ایک سو پندرہ روپے فی کلو کر دی پھر بھی سناٹا ہے کیونکہ عوام دال روٹی کے حصول کے کیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان کے پاس احتجاج کرنے کا وقت ہی نہیں اگر وہ احتجاج کریں گے تو ان کا خاندان بھوکامر جائے گا۔
میڈیا کے نمائندگان سے گفتگو کرے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ وزیراعظم نے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے جو کہا ہے الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس لینا چاہیے پہلے بجٹ سال میں ایک بار آتا تھا اب آئے روز آتا ہے اسٹیٹس کو جاگیر داروں اور سودی نظام نے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی سے دور رکھا ہوا ہے جن لوگوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا وہ بھی انصاف کے لیے ترس رہے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں کیونکہ وزیراعظم نے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیاوہ جو بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اب سینیٹ کے الیکشن میں کامیاب ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں ارب پتی لوگوں کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں پی ڈی ایم اور تحریک انصاف دونوں ہی اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں عوام کی لڑائی صرف جماعت اسلامی لڑ رہی ہے انہوں نے قوم سے اپیل کی ہے وہ جماعت اسلامی کا ساتھ دیں ورنہ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کا طوق ان کے گلے میں پڑا رہے گا عوام کو اپنی لڑائی آپ لڑنا ہو گی اس کا واحد حل یہی ہے کہ جماعت اسلامی کو مضبوط کریں تاکہ شرعی نظام کی راہ ہموار ہو سکے ورنہ حکومتیں درآمد ہدایات پر عوام کا خون چوستی رہیں گی کیو نکہ حکمرانوں کو قرض ہی اس شرط پر دیا جاتا ہے کہ وہ عوام کے ہاتھ کا نوالہ بھی چھین کر انہیں دیں آئی ایم ایف کی جانب سے جو قرضہ ملا ہے وہ مہنگائی میں اضافہ کرنے سے مشروط ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی سمری پر فی الحال دستخط نہیں کیے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک مضبوط اور خود دار وزیراعظم ثابت کرنا چاہتے ہیں مگر ان کی دلیری اور عوام سے ہمدردی صرف مارچ تک ہے شاید موصوف نے بجلی کی قیمت بڑھانے کے لیے تھوڑی مہلت کی التجا کی ہوگی۔