سوختہ جاں قافلے کا سالار، حافظ اسلم

524

یہ عجیب اتفاق ہے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے ایک ایسے وقت پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے جب طلبہ یونین کے دور کے مغربی پاکستان کے پہلے شہید حافظ محمد اسلم کا یوم شہادت بھی ہے۔ سراج الحق صاحب نے 24 فروری کو اسلامی جمعیت طلبہ کے وفد سے ملاقات میں یہ مطالبہ کیا۔ طلبہ یونین کو وہ کیوں اہمیت دیتے ہیں اس کا علم ان سے زیادہ کس کو ہوگا کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بھی رہے اور ان ہی کے قافلے کے ساتھی حافظ محمد اسلم تھے۔ بہرحال حافظ اسلم شہید کے یوم شہادت پر ان کی یاد قلم کے راستے کاغذ پر آجاتی ہے ورنہ ماڈل اسکول پی ای سی ایچ ایس کے قریب سے گزرتے ہوئے کسی نوجوان نیک سیرت طالب علم سے ملاقات کرتے ہوئے، طلبہ کے مسائل کا ذکر سنتے ہوئے اور اپنا جائزہ لیتے ہوئے حافظ اسلم یاد آجاتے ہیں۔ حافظ اسلم ایک فرد نہیں تھے ایک تحریک کا حصہ اور اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ اللہ نے اس مرد مومن میں فراست، حکمت، تحمل، جرأت بیک وقت بہت ساری خوبیاں جمع کردی تھیں۔ حافظ اسلم کو یاد کرنے کا مقصد صرف ایک شخصیت کو یاد کرنا نہیں بلکہ 26 فروری 1981ء کو ان کا جامعہ کراچی میں قتل بیک وقت بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے۔ یہ جنرل ضیا الحق کا دور تھا اور صاف نظر آرہا تھا کہ طلبہ یونینوں اور تنظیموں کے وجود سے جرنیل اور ان کے رفقائے کار خاصے پریشان رہتے تھے۔ ان کے تصور میں نہیں تھا کہ ہمارے سامنے سیاسی رہنما بھی کانپتے ہیں اور سرکاری افسران بھی لیکن یہ کون لوگ ہیں جو علی الاعلان کہتے پھرتے ہیں کہ ہم منتخب لوگ ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جامعہ این ای ڈی کی یونین کے منتخب سیکرٹری مسعود محمود خان گرفتار تھے ان کو مارشل لا کورٹ نے کوڑوں کی سزا سنادی تھی۔ ڈی ایم ایل اے کا دفتر کشمیر روڈ پر تھا۔ وہاں صبح 8 بجے سے تین چار طلبہ کھڑے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایم ایل اے سے ملنا ہے۔ غالباً حکیم ارشد قریشی صاحب تھے۔ انہوں نے کہاکہ بھیجو… سوال ہوا کیا بات ہے، کہنے لگے کہ ہمارے منتخب سیکرٹری کو گرفتار کرلیا گیا ہے اسے رہا کردیں۔ اسے… رہا کردیں… ڈی ایم ایل اے صاحب نے غصے میں کہا کہ اسے تو کوڑے پڑیں گے۔ یہ کہہ کرطلبہ کا خوف اور کانپنا دیکھنے کے لیے ان کی طرف نظر کی۔ یونین کے صدر نے ایک لمحے توقف کیا گہری سانس لی اور کہنا شروع کیا۔ اسے کیوں… وہ تو طلبہ کا منتخب سیکرٹری ہے، انجینئر بننے والا ہے، کوڑے تو اسے پڑنے چاہئیں جس نے منتخب اسمبلی توڑی، جس نے پارلیمنٹ توڑی، جس نے … بس بس آپ لوگ جاسکتے ہیں۔ جانے والے سوچ رہے تھے کہ گڑ بڑ ہوگئی۔ اب تو مسعود محمود کو کوڑے ہی پڑیں گے۔ لیکن دوسری طرف کچھ اقدار یا لحاظ باقی تھا۔ یا پھر مسئلے کا مستقل حل کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔ حیرت انگیز طور پر مسعود محمود کو رہا کردیا گیا۔ ادھر یہ سوچ تھی کہ یہ جرأت یہ مضبوطی دو ہی چیزوں نے عطا کی ہے۔ ایک جمعیت اور دوسری یونین، سو دونوں کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا اور وہ تین برس میں یونین ختم ہوگئی۔ البتہ جمعیت ختم کرنے کی خواہش لیے کئی آمر خود قبروں میں جا سوئے۔
جمعیت کیوں ختم نہ ہوسکی۔ اس کی آسان سی تشریح سید صاحب کرتے تھے۔ سید منور حسن خود اس قافلے کے سالار رہے تھے۔ ایک دن اسلامی ریسرچ اکیڈمی میں باتیں کرتے کرتے کہنے لگے کہ یہ بتائو کہ ہر سال لاکھوں جانور عیدالاضحی پر قربان کردیے جاتے ہیں لیکن کمی نہیں ہوتی… کیا وجہ ہے کبھی سوچا… پھر خود ہی بتاتے تھے کہ ساری دنیا میں لوگ جہاد کررہے ہیں شہید ہورہے ہیں مجاہد بھی کم نہیں ہوئے شہید بھی… اور جہاد جاری رہتا ہے۔ پھر اصل بات پر آئے کہ عبدالمالک سے اسلم اور آج تک سارے شہید اللہ کی رضا کی خاطر جاں دینے والے تھے اور جس چیز کی قربانی اللہ کی راہ میں دی جائے اس میں کمی کون کرسکتا ہے اس میں تو اضافہ ہی ہوتا ہے۔ عامر سعید کی شہادت پر جمعیت کے پوسٹر پر یہ اشعار درج تھے
باریابی جو تمہاری ہو حضور مالک
کہنا ساتھی میرے کچھ سوختہ جاں اور بھی ہیں
اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا
ایسے تمغوں کے طلبگار وہاں اور بھی ہیں
شعر میں غلطی ہوسکتی ہے اس کا مقصد اور اس کی روح تو سمجھ میں آگئی ہوگی۔ حافظ اسلم پاکستان کے تعلیمی اداروں میں دوسرا قتل تھے اور مغربی پاکستان کا پہلا اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں جس بنیاد پر طلبہ تنظیموں اور یونینوں پر پابندی لگی تھی کہ اس سے تعلیمی اداروں میں سیاست آتی ہے امن خراب ہوتا ہے، تعلیم خراب ہوتی ہے، وہ سب کچھ ہورہا ہے طلبہ یونین نہیں ہیں۔
سراج الحق نے توجہ دلائی ہے یونین نہ ہونے کے سبب قومی سیاست کئی امراض کا شکار ہے اور اس پابندی کا مقصد اجتماعی زندگی سے سیاسی شعور کا خاتمہ تھا۔ اب تو فوجی حکومتیں نہیں ہیں لیکن فوجی گملوں کی پنیری والے حکمران خود طلبہ یونینوں کی بحالی نہیں چاہتے۔ کیونکہ ان کے اپنے لیے چیلنج پیدا ہوجائے گا۔ پوری مسلم لیگ میں مشاہد اللہ اور جاوید ہاشمی اور احسن اقبال جیسے لوگ نہیں ملیں گے۔ یہ طلبہ کی نرسری کی پیداوار ہیں۔ حافظ اسلم کی شہادت کے بعد سوختہ جاں ساتھیوں کی ایک بہار سامنے آئی اور آتی چلی جارہی ہے۔ لوگ انہیں بنیاد پرست، کہیں دہشت گرد، کہیں سیاسی اسلام، کچھ بھی کہیں، سوختہ جانوں کی یہ فصل بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ راستے روکنے والے خود راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کچھ یہ سوختہ جاں نذر کرکے جاتے ہیں وہ صرف خوں کے قطرے نہیں ہیں وہ ایک نظریہ ایک پیغام ایک تحریک منتقل کرتے ہیں، طلبہ یونین پر پابندی تو لگ گئی لیکن جمعیت تو زندہ ہے۔ ہر قتل پر زندہ ہوتی ہے ہر شہادت پر کہا جاتا ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔