سیدنا بلال حبشیؓ

314

ابو عبداللہ، سیدنا بلال حبشیؓ، افریقی نسل کے اولین مسلمانوں میں سے ہیں جو محسن انسانیتؐ کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئے اور سابقون الاولون اصحاب نبیؐ میں ان کا شمار ہوا۔ آپ کے والدکا نام ’’رباح‘‘ اور والدہ محترمہ ’’حمامہ‘‘ تھیں۔ ان کے والدین بنیادی طور پر افریقہ کے خطے حبشہ جسے آج کل ’’ایتھوپیا‘‘ کہا جاتا ہے‘ کے رہنے والے تھے۔ سیدنا بلالؓ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہی ہوئی، امت مسلمہ میں ’’موذن نبوی‘‘ ان کی اول و آخر شناخت ہے۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے خریدکر آزاد کیا اور پھر ساری عمر جوار نبوی میں بسر کی۔ سیدنا بلالؓ کو محسن انسانیتؐ کا اس قدر قرب میسر آیا کہ جملہ ضروریات نبوی سیدنا بلالؓ کی ہی ذمے داری تھی۔ آپ کا شمار اصحاب صفہ میں بھی ہوتا ہے، محسن انسانیتؐ نے سیدنا بلال کو اولین موذن اسلام بنایا، انہیں اذان سکھائی، الفاظ و حروف کی صحیح ادائیگی کا طریقہ سمجھایا اور پھر انہیں ’’سیدالموذنین‘‘ کا لقب بھی مرحمت فرمایا۔
وصال نبوی کا سانحہ کل اصحاب رسول کے لیے بالعموم جبکہ سیدنا بلال کے لیے بالخصوص جاں بلب تھا۔ مدینہ شہرکا گوشہ گوشہ آپ کو محسن انسانیتؐ کی یاد لاتا تھا چنانچہ آپ لشکر اسامہ بن زید کے ساتھ ملک شام کی طرف سدھار گئے اور اذان دینا بندکردی۔ ایک بار جب سیدنا عمرؓ نے بیت القدس فتح کیا تو ساتھیوں کے بے حد اسرار پر امیرالمومنین نے سیدنا بلال سے اذان کی درخواست کی جس کو آپ نے قبول فرمایا۔ ایک بار آپ دمشق میں محو اسراحت تھے کہ خواب میں زیارت اقدسؐ ہوئی، استفسار کیا کہ بلال ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے…! بیدار ہوتے ہی آقائے دوجہاں کے شہر کا قصد کیا اور روضۂ رسول کی زیارت کی۔ مدینہ طیبہ میں حسنین کریمین شفیقین سے ملاقات ہوئی تو انہیں بے حد پیار کیا اور ان کی بلائیں لیں۔ شہزادوں نے اذان کی فرمائش کی تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آقا کے نورنظر، لخت جگر کی فرمائش کو سیدنا بلالؓ جیسے محبان رسول پوری نہ کرتے۔ جب اذان کی دوسری شہادت پر پہنچے اور حسب عادت ممبر کی طرف نظر اٹھائی تو محسن انسانیت عنقا تھے، روتے روتے بے ہوش ہوگئے۔ دوسری جانب جس جس کے کانوں میں صدائے بلالی پہنچی دور نبوت کے مناظر تازہ ہوتے گئے اور مرد وزن اپنے گھروں سے نکل نکل کر آنسؤں کی لڑیوں کے ساتھ مسجد کی طرف ایسے کھچے چلے آئے جیسے مقناطیس کی طرف لوہے کے ذرات چلے آتے ہیں۔ یہ سیدنا بلالؓ کی زندگی کی آخری اذان تھی۔
20 محرم، ہجرت کے بیسویں سال ماہتاب عشق نبوی زوال پزیر ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دمشق کے محلہ باب الصغیر میں آپ نے وفات پائی۔ اس وقت عمر عزیز، بمطابق سنت، خاص تریسٹھ برس تھی۔ دو مزارات آپ سے منسوب ہیں، ایک تو دمشق میں ہے اور ایک اردن کے ’’بدر‘‘ نامی گاؤں میں ہے۔ اعلان نبوت کے وقت سیدنا بلال تیس برس کے تھے، بقیہ تیتیس برس کچھ نہ کیا سوائے صحبت نبویؐ کے۔ محسن انسانیت کے ساتھ چلتے رہتے تھے اور جب آپؐ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو سیدنا بلالؓ باہر بیٹھ جاتے۔ انتظار کے لمحات طویل ہوتے یا مختصر، آپؐ جب گھر سے باہر نکلتے تو سیدنا بلالؓ آپؐ کی معیت میں پھر پیچھے پیچھے چل پڑتے۔ یہ ساتھ روز حشر بھی قائم رہے گا اور جنت الفردوس کے دورازے پر جب اگلی پچھی امتوں کے افراد منتظر ہوں گے کہ کب خاتم النبیین تشریف لائیں اور سب سے پہلے انہیں کے لیے جنت کے اس خوبصورت ترین حصے کا دورازہ کھولا جائے، تو میدان حشر سے سب سے آخر میں روانہ ہونے والے محسن انسانیتؐ جب جنت الفردوس کے دروازے پر پہنچیں گے تو اپنی اونٹنی قصوی پر تشریف رکھے ہوئے ہوں گے اور اونٹنی کی نکیل سیدنا بلالؓ نے تھامی ہوگی، جنتی کی حیثیت سے تو آپؐ ہی جنت الفردوس میں سب سے پہلے داخل ہوں گے لیکن عملاََ سیدنا بلال قصوی کی نکیل تھامے وہ اولین فرد ہوں گے جنہیں جنت کے اس اعلی ترین درجے میں سب سے پہلے داخلے کا شرف حاصل ہوگا۔ جبکہ جنت کی حوروں میں سے بھی سب زیادہ حسین و جمیل حور آپ کی قسمت میں لکھی گئی ہے۔