مریم علیہا السلام

273

عمران کی بیوی نے بچی کو جنا، انھیں صدمہ سا ہوا، وہ سوچنے لگیں کہ ایک عورت کو اللہ کے لیے کیسے وقف کیا جاسکتا ہے، اتنا بڑا کام کرنے کے لیے تو مرد ہونا ضروری ہے۔ اللہ پاک نے تسلی دی اور کہا ہم نے تمھیں ایسی لڑکی دی ہے جو اس لڑکے سے زیادہ عظیم بنے گی جس کی تمھیں تمنا تھی۔ اللہ نے انھیں مریم سے نوازا۔ اور مریم کو ایسے اعلی مقام پر فائز کردیا کہ وہ رہتی دنیا کی ہر عورت کے لیے عزم و ہمت کا سرچشمہ (inspiration of source) بن گئیں۔ قرآن مجید میں مریم کا تذکرہ ہر عورت کو یہ پیغام دیتا رہے گا کہ عورت عظمت کے بلند ترین مقام پر پہنچنے کا شوق پال سکتی ہے۔
قرآن مجید کسی تفصیل کے بغیر مریمؑ کی نمایاں خوبی یہ بتاتا ہے کہ انھوں نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی۔ اس خوبی کے اس قدر اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ تذکرے سے بس اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ مریمؑ نے نہایت نازک اور چیلنج بھرے حالات میں اپنی آبرو کی حفاظت کی تھی۔
عورت اپنی عزت و آبرو کی محافظ ہو، یہ اس کی بنیادی اور ضروری صفت ہے۔ تاہم نہایت چیلنجنگ حالات میں بھی وہ اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے، یہ اس کے طاقتور ہونے کی مضبوط دلیل ہے۔ عورت کی آبرو کو ہر دو طرف سے خطرہ لاحق رہتا ہے، شیطان اس قلعے کو مسمار کرنے کے لیے اندر سے خواہشات کی کدالوں کا استعمال کرتا ہے، اور باہر انسان نما شیطان اس پر حملہ آور ہونے کی تاک میں رہتے ہیں۔ بعض حالات میں اس کی حفاظت آسان اور بعض حالات میں مشکل ہوجاتی ہے، تاہم ایمان اور ارادے کی قوت رکھنے والی عورت ہر حال میں اپنی عزت و آبرو کی محافظ ہوتی ہے۔ آبرو کا مسئلہ درپیش ہو تو مومن مرد یوسف علیہ السلام کو یاد کرلیں، اور مومن عورتیں مریم علیھا السلام کو یاد کرلیں۔
اس کے علاوہ مریمؑ کی طاقتور شخصیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ عیسی علیہ السلام کی پیدائش کی نہایت سخت آزمائش سے گزریں۔ حمل اور پیدائش سے لے کر قوم کا سامنا کرنے تک اس آزمائش کا ہر لمحہ بہت سخت تھا۔ ایک کنواری عورت اپنی گود میں بچہ لے کر اپنی قوم کے سامنے جائے اور دل کو چیر کر رکھ دینے والے ان کے طعنوں کا سامنا کرے، مریمؑ جیسی پاک باز اور عفت صفت خاتون کے لیے یہ بہت کٹھن امتحان تھا، اور اپنی ایمانی طاقت سے وہ اس امتحان میں سرخ رو رہیں۔ کچھ بدبختوں نے ان پر تہمت باندھی، مگر ہر دور میں انسانوں کی عظیم ترین اکثریت نے انھیں پاک دامن مریمؑ کی حیثیت سے یاد کیا۔