نماز میں کیفیت کیسے پیدا ہو…؟

202

اللہ پاک نے زندگی دی، اور زندگی کی ہر ساعت کو نماز کا سایہ عطا کردیا۔ زندگی گزارنے کے لیے جتنی ساعتیں ملی ہیں، اتنی ہی نمازیں بھی مطلوب ہیں۔ تاکہ پوری زندگی نماز کے سائے میں اور نماز والی کیفیت میں گزرے۔ زندگی کی وہ ساعت ضائع ہوگئی جو نماز کے زیر سایہ نہیں گزری۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص نماز کی کیفیت سے آشنا ہوجاتا ہے، نماز اس کی زندگی کا سب سے مرغوب اور دل پسند مشغلہ بن جاتی ہے، اس کے شب وروز نماز پڑھنے اور نماز کا انتظار کرنے میں گزرنے لگتے ہیں۔ نماز میں اس کو سکون ملتا ہے، اور نماز ہی سے اس کو طاقت ملتی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ نماز کے متنوع طریقوں کو لے کر تو امت میں بہت زیادہ اختلافات ہیں، جو اکثر خط اعتدال سے نیچے گرجاتے ہیں، تاہم نماز کی مطلوبہ کیفیت پر سب کا اتفاق ہے، تمام مسلکوں کے صالحین اس کیفیت کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس مضمون میں نماز کی اسی کیفیت کا سراغ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کیفیت جذبات سے پیدا ہوتی ہے، دل جذبے سے خالی ہو تو زبان سے دہرائے جانے والے الفاظ سے خواہ وہ کتنے ہی معنی خیز اور اثر آفریں ہوں، نہ طبیعت میں تشفی بخش کیف پیدا ہوتا ہے، اور نہ دل خاطر خواہ اثر قبول کرتا ہے۔
اصل جذبہ وہ ہوتا ہے جو انسان کو اندر سے متحرک کرتا ہے، جو محرک خارج سے طاری ہوتا ہے، وہ عمل تو کراتا ہے، لیکن کیفیت سے آشنا نہیں کرتا ہے۔ معاشرے کا دباؤ ہو، قانون کا خوف ہو، ساتھیوں کا لحاظ ہو، یا خاندان کا رواج ہو، یہ سب خارجی محرکات کی مختلف صورتیں ہیں، جو زبان اور اعضاء وجوارح تک ہی محدود رہتی ہیں، دل سے ان کا واسطہ نہیں رہتا ہے۔
اسی لیے نماز محض یہ سوچ کر نہیں پڑھنی چاہیے کہ یہ ایک فرض ہے جسے بہرحال کسی طرح سر سے اتارنا ہے، اور جس میں کوتاہی سزا کا سبب بن سکتی ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہو کہ نماز آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، روح کی غذا ہے، وجود کی ضرورت ہے، اسے ادا کرنے سے دل میں موجزن جذبوں کی تکمیل ہوتی ہے، اسی سے زندگی بامعنی ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ نماز اس طرح جزو روح بن جائے کہ نماز نہیں پڑھنے پر روح پیاس اور تکلیف کی شدت سے چیخ پڑے۔
سچا اور حقیقی جذبہ وہ ہوتا ہے جو دل کی زمین پر اگتا ہے، اس کی شاخیں اعضا وجوارح تک پھیل جاتی ہیں، اور اس کی جڑیں دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہیں۔ نماز کے لیے ایسے ہی سچے اور فطری جذبات کی جستجو کرنی چاہیے۔
نماز کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے مصنوعی جذبات کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں، اللہ پاک نے اپنے بندوں کے لیے سچے اور حقیقی جذبات کا ایسا بھرپور انتظام کردیا ہے کہ کسی مصنوعی جذبے کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی ہے۔ دراصل مصنوعی معبود بنانے والوں کو مصنوعی عبادتوں اور ان کے لیے مصنوعی جذبات کی ضرورت پیش آتی ہے۔
تنہا حقیقی معبود یعنی اللہ تعالی کی عبادت کرنے کے لیے جب انسان آگے بڑھتا ہے، تو بے شمارسچے جذبے اس کے دل میں امنڈنے لگتے ہیں، اللہ کی پوری کائنات اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، اور اس کے جذبوں کو سہارا دیتی ہے۔
نماز نوع بہ نوع جذبات سے بھرپور عبادت ہے، یہاں ہم کچھ ایسے خاص جذبوں کا ذکر کریں گے، جن کا نماز سے تعلق بہت نمایاں ہے، اور اگر ان جذبوں کی نمود پر توجہ دی جائے تو نماز کی کیفیت میں بہت زیادہ ترقی ہوسکتی ہے۔ جو لوگ اس سے آگے جستجو جاری رکھیں گے ان کی مزید اور جذبوں تک رسائی بھی ہوسکتی ہے، اور یہ مطلوب بھی ہے۔ امام فراہیؒ نے سچ کہا ہے کہ دین نام ہے سیر باطن کا۔