ماہِ المرجب

687

سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ ’’رجب المرجب ‘‘ بھی ہے، اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا ’’اشہر حرم‘‘ میں سے ہونا ہے۔ (صحیح البخاری)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام کے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی فرما دی‘‘۔ (معارف القرآن للکاندھلوی)
رجب کی پہلی رات
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں: جب نبیِ اکرمؐ رجب کے مہینے کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما، اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح)
ملا علی قاریؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’ان مہینوں میں ہماری طاعت و عبادت میں برکت عطا فرما، اور ہماری عمر لمبی کر کے رمضان تک پہنچا؛ تا کہ رمضان کے اعمال روزے اور تراویح وغیرہ کی سعادت حاصل کریں‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح)
ماہِ رجب کے چاند کو دیکھ کر نبی کریمؐ دعا فرماتے تھے، اسی کے ساتھ بعض روایات سے اس رات میں قبولیتِ دعا کا بھی پتا چلتا ہے، جیسا کہ ’’مصنف عبدالرزاق‘‘ میں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے: ’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی وہ شبِ جمعہ، رجَب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات،عید الفطر کی رات اور عید الاضحیٰ کی رات ہے‘‘۔ (مصنف عبد الرزاق)
ماہِ رجب میں روزے
رجب میں روزہ رکھنے سے متعلق الگ سے کوئی خاص فضیلت منقول نہیں ہیں، حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا: ماہِ رجب میں خاص رجب کی وجہ سے کسی روزے کی مخصوص فضیلت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ (تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب)
البتہ روزہ خود ایک نیک عمل ہے اور پھر رجب کا ’’اشہرِ حرم‘‘ میں سے ہونا، تو یہ دونوں مل کر عام دنوں سے زائد حصولِ اجر کا باعث بن جاتے ہیں؛ لہٰذا اس مہینے میں کسی بھی دن کسی خاص متعین اجر کے اعتقاد کے بغیر روزہ رکھنا، یقینا مستحب اور حصول ِخیر کا ذریعہ ہوگا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے امداد الفتاویٰ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’دوسری حیثیت رجب میں صرف ’’شہرِ حرام‘‘ ہونے کی ہے، جو اس (رجب) میں اور بقیہ اشہرحْرم میں مشترک ہے، پہلی حیثیت سے قطعِ نظر صرف اس دوسری حیثیت سے اس میں روزہ رکھنے کو مندوب فرمایا گیا‘‘۔
چنانچہ کسی دن کو خاص کر کے روزہ رکھنے اور اس کے بارے میں عجیب و غریب فضائل بیان کرنے کی مثال 27 رجب کا روزہ ہے، جو عوام الناس میں ’’ہزاری روزہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ماہِ رجب کی بدعات
اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا، ان میں رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام، جس کو حدیث پاک کی اصطلاح میں ’’عتیرہ‘‘ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی،22 رجب کے کونڈوں کی رسم، 27 رجب کی شب ’’جشنِ شب ِ معراج‘‘ اور اگلے دن کا روزہ جس کو ’’ہزاری روزہ‘‘ کہا جاتا ہے، وغیرہ۔ سب ایسی رسومات وبدعات ہین جن کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے، ذیل میں 27 رجب سے متعلق ہونے والی منکرات اور ہزاری روزے سے متعلق کچھ عرض کیا جائے گا۔
27 رجب/ شبِ معراج
رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں، اس رات حلوہ پکانا، رنگین جھنڈیاں، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں کو جلا کے گھروں کے درو دیوار پر رکھنا وغیرہ، جن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ بدعت کہلائیں گی؛ کیونکہ نہ تو اِن سب اْمور کو ہمارے نبی کریمؐ نے بنفسِ نفیس کیا، نہ ان کے کرنے کا حکم کیا اور نہ ہی آپؐ کے اصحابؓ نے کیا، اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔ اور اگر ان اْمور کو عبادت سمجھ کے نہیں کیا جاتا؛ بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو ان میں فضول خرچی، اسراف اور آتش بازی کی صورت میں جانی نقصان کا خدشہ، سب اْمور شرعاً حرام ہیں۔
اِن تمام اْمور کو اِس بنیاد پر سرانجام دیا جاتا ہے کہ 27 ویں رجب میں نبیِ کریمؐ کو سفرِ معراج کروایا گیا، اس رات عوام کے اہتمام سے پتا چلتا ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو ہی حتمی اور قطعی طور پر شبِ معراج سمجھا جاتا ہے؛ حالانکہ آپؐ کو سفرِ معراج کب کروایا گیا؟ اِس بارے میں تاریخ، مہینے؛ بلکہ سال میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے؛ جس کی بنا پر ستائیسویں شب کو ہی شبِ معراج قرار دینا یکسر غلط ہے، اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔
دوسری بات! شبِ معراج جِس رات یا مہینے میں بھی ہو، اْس رات میں کسی قسم کی بھی متعین عبادت شریعت میں منقول نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ اِس رات میں سرکارِ دو عالم سیدنا محمدؐ کو بہت بڑا شرف بخشا گیا، آپ کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا گیا اور آپؐ کو آسمانوں پر بْلا کے بہت سے ہدیے دیے گئے؛ لیکن امت کے لیے اس بارے میں کسی قسم کی کوئی فضیلت والی بات کسی نے نقل نہیں کی۔
شبِ معراج افضل ہے یا شبِ قدر؟
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ سے پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی رات افضل ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نبی اکرمؐ کے حق میں لیلۃ المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلۃ القدر، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرمؐ کو مختص کیا گیا وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپؐ کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے، اور امت کو جو حصہ (انعامات) شبِ قدر میں نصیب ہوا، وہ اس سے کامل ہے جو (امت کو شبِ معراج میں) حاصل ہوا، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے؛ لیکن اصل فضل، شرف اور اعلیٰ مرتبہ اْس ہستی کے لیے ہے جِس کو معراج کروائی گئی‘‘۔ (مجموع الفتاویٰ)
علامہ ابن قیم الجوزیؒ نے بھی اسی قسم کا ایک لمبا سوال و جواب ابن تیمیہؒ کا نقل کیا ہے، اور اس کے بعد لکھا ہے: ’’اِس جیسے اْمور میں کلام کرنے کے لیے قطعی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن کا علم ’’وحی کے بغیر ممکن نہیں‘‘ اور اِ س معاملے میں کسی تعیین کے بارے میں وحی خاموش ہے؛ لہٰذا بغیر علم کے اِس بارے میں کلام کرنا جائز نہیں ہے‘‘۔ (زاد المعاد)