خواتین کی صلاحیتیں

217

مسلم خواتین کے مقام، کردار، حقوق اور واجبات وغیرہ کے سلسلے میں اسلام کا موقف بنیادی طور پر شریعت کے نصوص سے اخذ کیا جانا چاہیے، اس لیے پہلے قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ عورت کن میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے استعمال کے ذریعے سے اسلامی تہذیب کی ترقی وبقا میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
قرآن کریم میں فکر کو جلا بخشنے والے امور، رویوں کو درست سمت میں رکھنے والے نکات اور سبق آموز انسانی نمونوں سے شخصیت سازی کی جاتی ہے، اس لیے اس موضوع کے حوالے سے بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ عورتوں کے سماجی کردار کے سلسلے میں کیا نمونے پیش کیے گئے ہیں۔
قرآن مجید میں مردوں کے لیے انسانی کردار کے کچھ مثبت اور کچھ منفی نمونے پیش کیے گئے ہیں۔ کچھ نمونے وہ ہیں جن کے نقش قدم پر چل کر کامیابی سے سرفراز ہو سکتے ہیں، ان میں انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے کردار بہت اہم ہیں۔ کچھ اور انسانی کردار بھی پیش کیے گئے ہیں جو قابل تقلید ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منفی کردار بھی پیش کیے گئے ہیں، تاکہ لوگ ان امور سے اجتناب کریں جن میں فرعون نمرود ہامان قارون ابولہب جیسے اشخاص شامل ہیں۔ اس کے برعکس جب ہم قرآن پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ خواتین کے سلسلے میں کون کون سی شخصیتوں کے کرداروں کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، تو پتا چلتا ہے کہ جن کرداروں کو قرآن نے تفصیل سے پیش کیا ہے، وہ سب کسی نہ کسی پہلو سے خواتین کے لیے مثبت اور قابل تقلید نمونہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ان میں ایک عظیم الشان ہستی ملکہ سبا کی بھی ہے جس کی حکمرانی کے سلسلے میں قرآن نے تحسین کے کلمات استعمال کیے ہیں اور قرآن کے لب ولہجہ سے ہرگز پتا نہیں چلتا کہ یہ ناپسندیدہ یا منفی کردار ہے۔ اسی طرح جب موسی علیہ السلام مدین پہنچے، تو وہاں آپ نے دو لڑکیوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بکریوں کے ریوڑ کو سنبھالے ہوئے انتظار میں کھڑی ہیں کہ اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے مرد جگہ خالی کریں تو کنویں سے پانی نکالنے اور پلانے کا انتظام ہوجائے۔ ان کے باپ بوڑھے ہوگئے تھے اور گھر کا نظم چلانے کے لیے لڑکیوں نے معاشی ذمے داری اپنے اوپر لے رکھی تھی، جس کی خاطر بکریاں چراتی تھیں۔
ہر جاہلی سماج میں کمزور طبقوں پر ظلم روا رکھا جاتا ہے، جن میں خواتین سب سے زیادہ ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ رسول اللہؐ کی دعوت ایک پہلو سے دیکھیں تو خواتین کی مظلومیت اور سماجی پسماندگی سے آزادی کی تحریک بھی تھی، جس نے عورتوں کو ان کا صحیح مقام عطا کیا۔ ان کے وہ تمام حقوق انہیں واپس ملے، جنہیں معاشرے نے ہڑپ لیا تھا۔ دعوت دین، ہجرت، بیعت اور جہاد کے میدانوں میں وہ مرد کے شانہ بشانہ رہیں۔
اب یہ بات بہت سے لوگ بھول گئے ہیں، یا شاید اسے یاد نہیں رکھنا چاہتے کہ مسلم خواتین کی بہت لمبی تاریخ ہے، جو ہر زمانے میں بہت سے میدانوں میں نمایاں اہم خدمات انجام دیتی رہی ہیں اور بسا اوقات قیادت بھی کی ہے۔ عہد جدید سے پہلے کی مسلم دنیا میں دانشوروں، شاعروں، صوفیوں، حکمرانوں اور جنگجؤوں کی حیثیتوں میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، مگر ہم خود تاریخ کے اس روشن باب سے نابلد ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے صرف چند مثالیں کافی ہیں۔ سیدنا خدیجہ بنت خویلد (وفات 620ء) ایک تاجر تھیں۔ پیغمبر اسلام سے شادی سے پہلے ہی، وہ اپنے آپ میں صاحب رتبہ شخصیت تھیں، ایک کامیاب تاجر اور مکہ کی اشرافیہ میں سے ہونے کے ناطے انھوں نے اسلام کے نئے عقیدے کی تائید اور تبلیغ میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
نسیبہ بنت کعب (متوفی 634ء) کو ام عمارہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ بنی نجار قبیلے سے تھیں اور مدینہ میں ابتدائی طور پر اسلام قبول کرنے والوں میں سے ایک تھیں۔ ایک صحابیہ کی حیثیت سے، ان سے منسوب بہت سی خوبیاں ہیں۔ تاہم انہیں احد (625ء) کی جنگ میں حصہ لینے پر سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے، جس میں انھوں نے تلوار اور ڈھال اٹھائی اور مکہ والوں کے خلاف جنگ کی۔ انھوں نے جنگ کے دوران پیغمبر اسلام کو دشمنوں سے بچایا، کئی زخم کھائے اور تیروں کا سامنا کیا، وہ آپؐ کی حفاظت کرتے ہوئے ڈھال بن کر کھڑی رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بارہواں زخم کھانے کے بعد بے ہوش ہوگئیں اور جب مدینہ پہنچ کر اگلے روز ہوش میں آئیں، تو انھوں نے سب سے پہلے سوال کیا: ’’کیا پیغمبرؐ محفوظ ہیں؟‘‘ یہ ان کی وفاداری اور نئے عقیدے سے وابستگی کا روشن ثبوت ہے۔ ایسی بے شمار مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
گزشتہ کئی دہائیوں میں، کچھ امور جیسے خواندگی کا پھیلاؤ؛ لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے عوامی تعلیم کی دستیابی اور فروغ؛ خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع میں اضافہ اور دوسری مذہبی روایات سے خصوصا مغرب میں قبول اسلام کی بڑھتی ہوئی تعداد نے مسلم خواتین میں یہ خواہش پیدا کردی ہے کہ وہ اسلام کے تعارف، تعلیم وتبلیغ، معاشی سماجی اور سیاسی میدانوں میں ایک موثر کردار ادا کریں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح، مسلم خواتین نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھی وسائل سے مالامال، باصلاحیت، تخلیقی صفات سے آراستہ، اور مقصدیت کی دھن میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ آج، مسلمان خواتین قرآنی دروس کے حلقوں، مسجد پر مبنی سرگرمیوں، دینی تنظیموں کے زیر اہتمام کمیونٹی خدمات اور اسلامی تعلیم کے میدان میں (جس میں طلبا اور اساتذہ دونوں) سرگرم عمل نظر آتی ہیں۔ پوری دنیا میں مختلف میدانوں میں، قرأت کرنے والی خواتین، درس قرآن دینے والی خواتین، خواتین وکلاء، خواتین آرٹسٹ، خواتین ممبر آف پارلیمنٹ اور اسلامی علوم کی خواتین پروفیسروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نظر آتی ہے۔ خواتین تیزی سے مذہبی اہمیت کے حامل عہدوں پر بھی اپنی جگہ بنارہی ہیں۔ گو کہ ابھی مذہبی اداروں میں بڑے عہدوں تک پہنچ نہیں پائی ہیں۔
اس پس منظر میں مسلم خواتین کو عصر حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے، اپنے حوصلوں اور امنگوں کی ترجمانی کرنے، دین مبین کی نمائندگی کرنے کے لیے درکار گونا گوں صلاحیتیں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ تاہم ان میں چار صلاحیتیں ایسی ہیں جنہیں ترجیح دیتے ہوئے، انفرادی طور پر خواتین اپنے اندر پروان چڑھانے کی فکر کریں، تو اجتماعی ماحول بھی ان صلاحیتوں کے فروغ اور نشونما میں معاون ثابت ہوگا۔