مزاحمتی مہم کو کامیاب کیسے بنایا جائے

317

نومبر 2020 سے ایک ملک گیر مزاحمتی مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ ایک درست فیصلہ ہے اور اگر اس مہم کو ہم نے ہوشیاری اور حوصلہ مندی سے منظم کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس مہم کے نتیجہ میں اسلامی انقلابی جدوجہد آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مخلصین دین اس مہم میں شرکت اختیار کریں۔ ہم نے 1965، 70-1969، 1977 وغیرہ میں بھی مہمات چلائی ہیں اور وہ سب ان معنوں میں ناکام رہیں کہ ان کے نتیجے میں نہ سرمایہ دارانہ نظام اقتدار متزلزل ہوا نہ ہماری عوامی پزیرائی میں خاطرخواہ دیرپا ضافہ ہو سکا۔ یہ بات 1977 کی عظیم الشان تحریک نظام مصطفی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں ایک فوجی حکومت برسراقتدار آ گئی اور اسلامی قوتیں پیچھے دھکیل دی گئیں۔ ان مزاحمتی تحریکوں کی ناکامی کی تین بنیادی وجوہات تھیں۔
1۔ یہ بحالی جمہوریت کی تحریکیں تھیں اور بحالی جمہوریت لازماً سرمایہ دارانہ اقتدار کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ 2۔ ہم نے ان مہمات کے ذریعہ مخلصین دین کو نہیں عوام کو مخاطب کرنے کی جستجو کی اور پاکستانی عوام غلبہ دین کو بحیثیت سیاسی ہدف قبول نہیں کرتے۔ 3۔ ہم شرکائے مہم کو صرف وقتی طور پر متحد کر سکے ان کو دیرپا اور انقلابی بنیادوں پر منظم نہ کر سکے۔ آئیے ہم عزم کریں کہ حالیہ تحریک میں یہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ تحریک کا ہدف جیسا کہ امیر جماعت سراج الحق نے فرمایا ہم چہرہ نہیں نظام بدلنے کے لیے اٹھے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کا مطلب محض حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ ریاستی ادارتی صف بندی کو منتشر کرنا ہے۔ یہ نظام محض حکومت یا مقننہ نہیں چلا رہی بلکہ ریاستی عمل ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔ عوام سرمایہ کی غلامی پر مجبور ہیں۔ وہ محض حکومت اور مقننہ کے آگے بے بس نہیں۔ بیوروکریسی، عدلیہ، کارپوریشنوں، بینکوں، میڈیا اور پولیس کے آگے بھی بے بس ہیں۔ لاطینی امریکی مزاحمتی تحریکوں کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی نظاماتی بے بسی ان کی انقلابی ادارتی صف بندی کے ذریعہ ہی کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا ہماری مزاحمت کا ہدف نہ محض نئے انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے نہ محض حکومت کی تبدیلی۔ یہ دیرپا اسلامی انقلاب برپا کرنے کا ایک ذریعہ ہو گی اور عوام کی مخلصین دین کی زیر قیادت ادارتی صف بندی اس کا کلیدی ہدف ہو گی۔ انعقاد انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے ضمن میں ہمارا رویہ عوامی غیر سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندی کے تناظر میں ہی مروج کیا جائے گا۔ مزاحمت کا بنیادی ہدف اسلامی انقلابی عمل (جو لازماً طویل المدت ہو گا) کی mass base منظم کرنا ہو گا۔
یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے کہ ہماری قیادت اس مہم کو لوگوں کی روزمرہ زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے متصور کر رہی ہے۔ یہ چیز ہمیں پی ڈی ایم کی مہم سے ممیز کرتی ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ روزمرہ کے مسائل پر توجہ محض سوشل ڈیموکریٹ مطالبات پیش کرنے تک محدود نہ رہے۔ اس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں: 1۔ روزمرہ کے مسائل کے حل کا جو بیانیہ مرتب کیا جائے وہ ہماری اسلامی شناخت کو فروغ دے اور ہمیں مخلصین دین سے قرب حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ 2۔ روزمرہ کے مسائل کے قابل عمل حل مقامی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔ 1977 کے برخلاف 2020 میں ہم اپنی مزاحمتی جدوجہد کو اسلامی رنگ دینے میں اب تک ہمیں سرمایہ دارانہ حقوق کی فراہمی پر نہیں دینی فرائض کی ادائیگی کی فرضیت پر زور دینا ہو گا۔ مہم کے دوران ہمارے بنیادی مخاطبین عوام نہیں مخلصین دین ہوں گے اور ہمارا کام ہو گا کہ مخلصین دین کو عوام کے اجتماعی مسائل کے ممکنہ حل کے لیے قیادت بہم پہنچانے کی فرضیت کا احساس دلائیں۔ پاکستانی مخلصین دین کی یہ ایک کمزوری ہے کہ وہ انفرادی، علمی اور روحانی ترفع کو اخروی نجات کے لیے کافی تصور کرتے ہیں اور امت کو درپیش اجتماعی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور سرمایہ کی غلامی پر رضامند ہو گئے ہیں۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
مخلصین دین کو عوامی قیادت کی ذمے داریاں سنبھالنے پر آمادہ کرنا ہے تو لازم ہے کہ مزاحمتی مہم کا بنیادی تنظیمی یونٹ مسجد، مدرسہ اور خانقاہ ہو۔ مزاحمتی تحریک کی قیادت بڑے پیمانہ پر ائمہ مساجد اور مدارس کے اساتذہ کرام کے ہاتھوں میں ہو اور باقاعدگی سے مساجد میں ذکر کی محافل منعقد کی جائیں ویسی جو شہری احتجاجی جلسوں سے منسلک ہوں۔ ان بنیادی انتظامی یونٹس کا دائرہ کار احتجاجوں میں شرکت تک محدود نہ ہو بلکہ مقامی سطح پر روزمرہ کے مندرجہ ذیل مسائل حل کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔1۔ محلہ کی سطح پر ردفواحش (اشتہارات، وڈیو شاپس، سودی کاروبار، منشیات فروشی وغیرہ) اور منکرات سے کراہت۔ 2۔ آبی اور توانائی فراہمی پر عوامی کنٹرول کا قیام۔ 3۔ محلہ کے بازاروں، اسکولوں اور اسپتالوں میں قیمتوں اور فیسوں کی نگرانی۔ 4۔ حلال کاروبار کے فروغ کے لیے تمویلی اسکیموں کا اجرا۔
احتجاج کے شرکا کو منتشر نہ ہونے دیا جائے بلکہ ان کو کسی نہ کسی محلہ یونٹ کی قیادت میں منظم کرنے کی کوشش کی جائے اور اس قیادت کے تحت ان کو انتظامی ذمے داریاں سونپی جائیں۔ بولیویا، وینزویلا اور جنوبی افریقا میں اس نوعیت کے تجربات نہایت کامیاب ثابت ہوئے اور ان ممالک میں غریب بستیوں میں پانی اور بجلی کی ترسیل پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔ مزاحمتی مہم کی کامیابی نہ مطالبات کی منظوری کے لیے نہ انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے لیے ہو گی۔ مہم طویل مدت تک کامیاب ہوتی چلی جائے گی ان معنوں میں کہ زیادہ سے زیادہ عوام مخلصین دین کی قیادت میں مقامی سطح پر منظم اور متحد ہوتے جائیں گے اور اقتدار سرمایہ دارانہ ریاستی اداروں سے بتدریج اسلامی انقلابی عوامی اداروں تک منتقل ہوتا جائے گا۔ اس طریقے سے احتجاجی مہم اسلامی انقلابی عوامی بنیاد تعمیر کرنے کا ذریعہ بنتی چلی جائے گی اور ہم 2023 تک اس پوزیشن میں ہوں گے کہ ایسا موثر اسلامی ماحول بنا سکیں جو حکومت کو انتقال اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے پر مجبور کر سکے۔