غربت کا خاتمہ کیسے؟

468

وزیراعظم عمران خان نے سری لنکا کا دو روزہ دورہ مکمل کرلیا ہے۔ وزیراعظم کے دورۂ سری لنکا کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ دورۂ سری لنکا کے دوران میں وزیراعظم عمران خان نے سری لنکا کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت بھی دی۔ دورے کے اختتام پر انہوں نے کولمبو میں پہلی پاکستان سری لنکا ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر سری لنکا کے وزیراعظم مہندارا جاپاکسے بھی موجود تھے۔ سری لنکا اور پاکستان کے تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے جہاں اور موضوعات پر گفتگو کی وہیں انہوں نے کہا کہ وہ غربت کے خاتمے کا مقصد لے کر سیاست میں آئے۔ سری لنکا کے صدر کے ساتھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے سیر حاصل بات چیت ہوئی۔ چین نے ہول سیل اور ریٹیل میں فرق کو ٹیکنالوجی کے ذریعے کم کیا تاکہ عام شہری کو سہولت حاصل ہو۔ سرمایہ کاری کے ذریعے ہم غربت میں کمی لاسکتے ہیں، کاروبار کو آسان بنانا اور برآمدات بڑھانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ چین نے 35 سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرکے ہم غربت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ سیاسی استحکام اور ہمسایوں سے بہتر تعلقات بھی غربت میں کمی کا ذریعہ ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ سری لنکا کے صدر نے مہنگائی ختم کرنے کے گر بتائے ہیں وہ پاکستان میں ان پر عمل کریں گے۔ تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے صدر کے ساتھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے سیر حاصل بات چیت ہوئی۔ دریں اثنا عمران خان کے جاری کردہ بیان میں بھی اس مسئلے کا ذکر ہوا ہے اور کہا ہے کہ سری لنکا کے صدر سے ملاقات میں ہم نے بالخصوص دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے مشترکہ عزم کے حوالے سے بات چیت کی۔ ہم نے اس حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا کہ کسانوں کو ان کی پیداوار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح ہوسکتا ہے اور مڈل مین کے کردار کو ختم کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے شہریوں تک اشیائے خورو نوش ارزاں نرخوں پر کس طرح پہنچائی جاسکتی ہیں۔ دورۂ سری لنکا کے دوران میں وزیراعظم نے تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس میں غربت کے خاتمے کے بارے میں جو گفتگو کی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اس سے قبل مختلف ملکوں کے ماڈل کا تذکرہ کرچکے ہیں۔ اب انہوں نے سری لنکا کی سیاسی قیادت کے تجربے سے استفادہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو اپنے ناقص وژن کے تجربات کی بھٹی میں جھونکتے رہیں گے۔ غربت اور مہنگائی کے اسباب اور اس کے خاتمے کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کے ناقص فہم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ منڈی میں مڈل مین کو ہٹادیا جائے تو قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔ حالاں کہ مہنگائی اور غربت کا ایک اہم سبب اجارہ داری ہے، اجارہ داری کے فساد کا اندازہ چینی اسکینڈل سے کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں چینی کے صرف 75 کے قریب کارخانے ہیں جن کو اتنی طاقت حاصل ہوگئی ہے کہ وہ حکومتوں کو بھی بلیک میل کرنے لگے ہیں۔ چینی اسکینڈل کے حوالے سے وہ اپنی بے بسی کو محسوس کرچکے ہوں گے، اجارہ داری کے خاتمے کے بغیر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوسکتی اور اجارہ داری ارتکاز دولت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مہنگائی کا سبب مصنوعی ہے۔ پیداواری لاگت میں توانائی اور اس سے متعلقہ سہولتیں بجلی، گیس، پٹرول کے نرخوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس شعبے میں بھی عالمی اور مقامی سطح پر ایک محدود طبقے کو اجارہ داری حاصل ہے جو مافیا بن کر پاکستان میں مسلط ہوچکی ہے۔ وزیراعظم نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے پاس مافیا کے جال کو توڑنے کے لیے کیا حکمت عملی ہے۔ پیداواری لاگت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب پاکستانی کرنسی کی قیمت میں کمی اور ڈالر کی شرح میں اضافہ ہے۔ کرنسی کی قیمت میں کمی کا سبب غیر ملکی اور عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضوں میں اضافہ ہے۔ عالمی مالیاتی قرضوں کا سیاسی ایجنڈا اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے مطابق پاکستانی حکومت کو اتنا مفلوج رکھتا ہے کہ وہ عالمی سیاست میں آزادانہ فیصلے نہیں کرسکیں۔ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کر سیاست میں مقبول ہوئے لیکن مہنگائی کی رفتار میں اضافے نے انہیں غیر مقبول کردیا ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ ان کے پاس کوئی معاشی حکمت عملی نہیں ہے۔ ملکی معیشت کو خود انحصاری کے راستے پر ڈالنے اور عوام کو معاشی مصائب سے نکالنے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ وہ ملائیشیا، چین سمیت مختلف ممالک کے نمونوں کا حوالے دیتے ہیں لیکن خود کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتے۔ غربت اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے گہرائی کے ساتھ غور کرنا ہوگا، لیکن انہوں نے اپنی معاشی ٹیم میں جس کو وزیرخزانہ بنایا ہے وہ سابق حکومت ہی کا ایک وزیر ہے۔ جو عالمی مالیاتی اداروں کا نامزد نمائندہ ہے۔ جس کے دور میں بھی زیادہ مہنگے قرضے لیے گئے ہیں۔ تمام قرضے سخت شرائط پر ہیں جن میں کرنسی کی قدر میں کمی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ان پالیسیوں کے دولت مندوں کا ایک ایسا طاقتور گروپ پیدا کردیا ہے جو ہر قسم کی اصلاح کے راستے میں سخت مزاحم ہے۔