مسجد ابراہیمی میں قتل عام کو 27 سال اسرائیلی جارحیت جاری

264

مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) مسجد ابراہیمی میں اسرائیلی فوج کے قتل عام کو 27برس گزرنے کے بعد عالمی برادری صہیونی حکومت کو لگام دینے کے لیے کچھ نہ کرسکی۔ 25 فروری 1994ء میں انتہاپسند یہودیوں نے مسجد ابراہیم پر حملہ کرکے وہاں مسلمانوں کا قتل عام کیاتھا۔ اس حملے میں 29فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے ۔ آبادکاروں کے ایک گروہ نے منصوبہ بندی کر کے تاریخی مسجد پر حملہ کیا ، جس میں انہیں اسرائیلی فوج کی بھرپور مدد حاصل تھی۔ جمعہ کے روز فلسطینی مسلمان فجر کی نماز ادا کر رہے تھے کہ آبادکار ان پر پل پڑے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملے میں زیادہ تر عمر رسیدہ اور بچے شہید ہوئے۔ انتہاپسند یہودیوں کے حملے کے بعد مسجد ابراہیم خون سے رنگ گئی اور ہر طرف انسانی خون اور اعضا بکھرے پڑے تھے ۔واضح رہے کہ مسلمان مسجد ابراہیم کو انتہائی مقدس سمجھتے ہیں کیوں کہ وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار ہے ۔ یہودی بھی اس جگہ کو مقدس مانتے ہیں ۔ واقعے کے عینی شاہد 60 سالہ ریٹائرڈ ٹیچر خمیس قافشہ کا کہنا ہے کہ فجر کی نماز کے وقت جب یہودی آبادکاروں نے مسجد ابراہیم پر حملہ کیا تو اسرائیلی فوج وہاں موجود نہیں تھی ،جب کہ اس سے ایک دن پہلے ہی مغرب کی نماز کے وقت مسلمانوں اور انتہاپسند یہودیوں میں جھڑپ ہوئی تھی۔ اس وقت اسرائیلی فوج فوری طور پر پہنچ گئی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودی حملہ آوروں کو اسرائیلی فوج کی مدد حاصل تھی۔ جمعرات کو عشا کی نماز کے وقت اسرائیلی فوج نے مسلمانوں کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا ،کیوں کہ مسجد میں انتہاپسند یہودی آبادکار موجود تھے۔ فجر کی نماز کے وقت جن چیک پوسٹوں پر اسرائیلی فوج تعینات تھی وہ اس دن خالی تھیں اور اسرائیلی فوج وہاں موجود نہیں تھی۔