ٹرمپ ازم بڑھ رہا ہے ،امریکی سماج واضح طور پر 2حصوں میں تقسیم ہوچکا

713

کراچی (رپورٹ :محمد علی فاروق) ٹرمپ ازم سفید فام نسل پرستی کا دوسران نام ہے اس آگ کو بھڑکا کروہ یورپین ممالک میں نسل پرستوںکا لیڈر بننا چاہ رہا ہے،ٹرمپ نے امریکا کی سیاست میںدراڑ ڈال دی سیاہ فام کا مسئلہ کھل کر سامنے آیا، ریپبلکن پارٹی کے لیے ٹرمپ نظریا ت کے خلاف جانا آسان نہ ہوگا ،امریکا میں 74ملین افراد آج بھی ٹرمپ کی سوچ پر یقین رکھتے ہیںوہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ الیکشن ہارے نہیںبلکہ انہیںالیکشن ہر وایا گیا ہے، امریکا میں ٹرمپ ازم ہمیشہ کسی نہ کسی صورت نظر آئے گا ، ٹرمپ کی خارجہ اورداخلہ پالیسی پرجو بائیڈن انتظامیہ کے کچھ تحفظات ہیں ،صدارتی احکامات کے تحت کچھ متنازع فیصلوں کو رد کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان امریکا تعلقات میں بہتری آئے گی۔ ان خیالا ت کا اظہار سابق سفارت کار اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی ، ضمیر اکرم ، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما آصف لقمان قاضی اور جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کی چیئر پرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعیدنے جسارت سے خصوصی گفتگو میں کیا ۔سابق سفارت کار اور سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلا نی نے کہا کہ ٹرمپ ازم جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے خارجہ اورداخلہ معاملات پر کچھ متنازع سرگرمیاں ضرور کی ہیں جن کا جو بائیڈن انتظامیہ بغور جائزہ لے رہی ہے۔ جو بائیدن انتظامیہ نے پہلے دن ہی 15 صدارتی احکامات جاری کیے تھے جن میں سابقہ انتظامیہ کے کچھ متنازع فیصلوں کو رد کیا گیا تھا ، ان فیصلوں میں اہم نقطہ تمام مسلم ممالک سے آنے والے شہریوں کو امریکا جانے کی اجازت بھی شامل تھی۔ ہمیں امید ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کے تحت پاکستان امریکا تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔سابق سفارت کار ضمیر اکرم نے کہا کہ میرے خیال میں امریکا میں ٹرمپ ازم کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہے گا ، اس کی بہت سی وجو ہات ہیں، ٹرمپ کی خارجہ اور داخلہ پالیسوں نے امریکی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ،ریپبلکن پارٹی ٹرمپ کے پیچھے کھڑے ہوئی ہے جس سے انتشار پیدا ہوا یہی وجہ بنی کہ پارٹی سینیٹ کے انتخابات میں واضح اکثریت نہ لے سکی ، ٹرمپ کی سیاست نے امریکا کی سیاست میں ایک دراڑ ڈال دی ہے ، ٹرمپ دور میں سفید اورسیاہ فام کا مسئلہ کھل کر سامنے آیا، ٹرمپ نے ہوائی اور زمینی سفر کے معاملات پیچیدہ کر دیے ، بین الاقوامی سطح پر خارجہ پالیسی برابری کی سطح پر بنا ئی جاتی ہے جبکہ ٹرمپ کے دور میں مذہب کے خلاف پالیسیاں سامنے آئیں، پاکستان کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ میرے مدمقابل کوئی دوسراملک سپر پاور بن کر ابھرے یہی وجہ ہے کہ چین کو گھیرا جا رہا ہے، پاکستان ، چین ، روس ، ایران کے معاملات پر ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوںکا تسلسل جاری رہے گا۔ اس کا واضح ثبوت نئی انتظامیہ کے حالیہ بیانات ہیںجو پرانے بیانا ت کی عکاسی کر تے ہیں ،ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے فوجیں نکا لنے کا کہا تھا تاہم جوبائیڈن انتظامیہ افغاانستان سے فوجو ں کے انخلا کے خلاف نظر آتی ہے ،انہوںنے کہا کہ ٹرمپ پہلی بار انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی وجہ سے ہی منتخب ہوا تھا اس بار پارٹی نے پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں ، اس سے لگتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لیے آسان نہ ہوگا کہ وہ ٹرمپ نظریات کے خلاف جائیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما آصف لقمان قاضی نے کہاہے کہ ٹرمپ ازم سفید فام نسل پرستی کا دوسران نام ہے،مغرب میں سفید فام نسل پرستی عروج پر ہے ، ٹرمپ جیسے موقع پر ست سیاستدان نے اس رجحان کا فائدہ اٹھا تے ہوئے نسل پرستی کی آگ کو مزید بھڑکا یا ہے ،وہ امریکا میںنسل پرستوںکا لیڈر بنا چا ہ رہا ہے اس کے نتیجے میں نسل پرست انتہاپسندی کو مزید تقویت مل رہی ہے،اس کا ایک مظہر گزشتہ مہینوںمیں دیکھنے میںآیا جب واشنگٹن کو سیکورٹی ایجنسیوں نے سیل کر دیا تھا، کیونکہ انتہا پسندوں کی جانب سے حملوںکا خطرہ تھا، انتہا پسند رجحانات خود امریکا کو تقسیم کر رہے ہیں، انہوںنے کہا کہ امریکی سماج اس وقت واضح طور پر دو کیمپوںمیں تقسیم ہوچکا ہے،لیبرل اور سفید فام نسل کے علاوہ دیگر نسلوںکے لوگ اور اقلیتیںامریکا میں اپنے تحفظ کے بارے میں تشویش رکھتے نظر آتے ہیں ، سفید فام نسل پرستی صرف امریکا تک محدود نہیںرہی بلکہ اس کی لپیٹ میں یورپی ممالک اور اسٹریلیا بھی زد میں آیا ہے، انتہا پسند نسل پرست بالخصوص مسلمانوںکو نشانہ بنا تے ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان کمیونٹی کی جڑیں بتدریج مغربی ممالک میںمضبوط ہورہی ہیں اوروہ سیاسی عمل میں بھی شریک ہورہے ہیں، اس کے نتیجے میں مغرب خود اپنے روایتی لبرل نظریات سے دستبردار ہوتا نظر آرہا ہے، یہ سوچ یو رپ میںپروان چڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے سفید فام تعصب کا شکار ہورہے ہیں، ٹرمپ کی انتہا پسند سوچ اور کے جانے کے بعد بھی جاری رہے گی۔ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعید نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ امریکا میںٹر مپ کی شکست کے باوجود اس کی سیاست باقی رہے گی ، رپبلکن پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ساتھ ٹرمپ امریکی سیاست میں بھی ایک طاقتور حیثیت کے طور پر سامنے آئے ہیں،سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کے حا مل افراد کی تعداد بڑ ھ رہی ہے، الیکشن کے نتائج سے قبل ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاہد ٹرمپ کی سیاست ختم ہوجائے گی، لیکن الیکشن کے نتائج کو دیکھا تو پتا چلا کہ منتخب ہونے والے صدر جو بائیڈن نے79ملین ووٹ حاصل کیے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے مقابلے میں 74ملین ووٹ حاصل کیے یعنی دونوںکے ووٹوں کی تعداد میں صرف 5ملین کا فرق نظر آیا، جو امریکا کی سیاست میںکسی نہ کسی طر ح اپنی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں، ٹرمپ اب بھی رپبلکن پارٹی کے ساتھ سفید فام امریکی تحریک کے اہم رہنما تصور کیے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کی شخصیت میں بہت سے مسائل ہوں گے مگر ٹرمپ کی اقلیت مخالف پالیسیوںپر 74 ملین افراد کا یقین رکھنا ان کے پرستارکو ظاہر کر تا ہے ان کے پر ستار اپنی وفاداری کے ثبوت کے طور پر آج بھی ٹرمپ کے جلسوں میں بڑی تعداد شریک ہو تے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ الیکشن ہارے نہیںبلکہ انہیںالیکشن ہر وایا گیا ہے ، کو رونا کی وبا کے باوجود ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کھل کر چلا ئی اور جتنی بھی ریلیاں نکا لی گئیں اس میں عوام نے ٹرمپ کا بھرپور ساتھ دیا، ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگلی بار الیکشن ہوئے تو وہ پھر بھرپور انداز میں الیکشن جیتیں گے، ٹرمپ کے حامیوںکا یہ خیال ہے کہ بحیثیت صدر ٹرمپ نے امریکا میں جتنے کام کیے اس سے قبل کسی صدر نے اتنے کام نہیںکیے، یہی وجو ہات ہیںکہ ٹرمپ کے الیکشن ہارنے کے بعد بھی امریکا میں ان کا نام اور پالیسی قائم ہے۔