بنگلا دیش: روہنگیا مہاجر خطرناک جزیرے سے نکلنے کے خواہاں

533
کاکسس بازار: روہنگیا پناہ گزینوں کی جزیرے پر منتقلی جاری ہے

ڈھاکا (انٹرنیشنل ڈیسک) بنگلادیش کی حکومت خلیج بنگال کے ایک خطرناک جزیرے بھاسن چار پر روہنگیا پناہ گزینوں کی منتقلی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بنگلادیشی حکومت ایک پروگرام کے تحت نئی زندگی کا جھانسا دے کر انہیں اس جزیرے پر بسا رہی ہے، تاہم وہ اس نقل مکانی سے خوش نہیں ہیں۔ بنگلادیشی حکومت بین الاقوامی امدادی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں کو اس جزیرے تک رسائی بھی نہیں دے رہی ہے، جس کے باعث بہت سے شبہات جنم لے رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اس کیمپ کے کچھ پناہ گزینوں کے ساتھ فون پر بات کی ہے۔ اس گفتگو میں جزیرے پر بنیادی ضروریات کے فقدان اور ملازتوں کے مواقع نہ ہونے پر ان پناہ گزینوں میں بڑھتا ہوا غصہ صاف محسوس ہوتا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو زبردستی میانمر سے اس وقت نکالا گیا تھا جب وہاں کی فوج نے ریاست راکھین میں گھس کر ان کے دیہات جلا دیے تھے۔ تقریباً 10 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے جان بچانے کے لیے بنگلادیش میں پناہ لی۔ ان کی اکثریت ضلع کاکسس بازار کے پُرہجوم کٹا پالانگ کیمپ میں پناہ گزیں ہوئی۔ بنگلادیش نے روہنگیا کو واپس بھیجنے کی ناکام کوششیں بھی کیں۔ اب اس کا منصوبہ تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو بھاسن چار کیمپ میں منتقل کرنے کا ہے، تا کہ دوسرے کیمپوں میں بھیڑ کم کی جا سکے۔ بھارسن چار کے پنہا گزین عنایت کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہتر زندگی کی امید میں اپنے خاندان کو یہاں منتقل کرنے کے لیے ہامی بھری تھی۔ حکام نے ہم سے بہت سی چیزوں کا وعدہ کیا تھا کہ ہر خاندان کو زمین کا ایک ٹکڑا، گائے، بھینسیں اور کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دیے جائیں گے۔ بھاسن چار کا جزیرہ 15 سال قبل بنگلادیشی ساحل سے 60 کلومیٹر دور سمندر میں اُبھرا تھا۔ 40مربع کلومیٹر کا جزیرہ سطح سمندر سے 2میٹر سے بھی کم بلند ہے اور مکمل کیچڑ سے بنا ہوا ہے۔ مقامی ماہی گیر اسے آرام کے لیے استعمال کرتے ہیں، لیکن کبھی بھی انسان اس پر آباد نہیں ہوئے۔