اردو کا نفاذ

656

قومی زبان اردو کے نفاذ کا فیصلہ 25فروری 1948کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہونے والے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ پہلا اجلاس 22فروری کو ہوا جس میں دستور سازاسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھایا اور اسی روز فیڈرل کورٹ (عدالت عظمیٰ) کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ 25فروری کو دستور ساز اسمبلی نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہے۔ دوتین بنگالی اراکین نے اردو کے حق میں تقرریں بھی کی اور ووٹ بھی دیے۔ قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی لیکن شومئی قسمت 73سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حکمراںطبقہ اور بیوروکریسی اردو کے نفاذ میں مکمل طور پر رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اور اردو کو اس ملک میں نافذ نہیں ہونے دیا گیا۔ 1956کے دستور میں اردوکو بطور قومی وسرکاری زبان نافذکرنے کا حکم دیا گیا۔ 1962 کے دستور میں بھی قومی زبان اردو ہی قرار پائی۔ 1973 کے دستور میں اردو کو قومی اور دفتری زبان قرار دیتے ہوئے 15سال کی مہلت دی گئی کہ تمام دفتری اور تدریسی مواد قومی زبان میں منتقل کیا جائے۔ یہ مدت 14اگست 1988کو ختم ہوگئی ہے۔ لیکن پاکستان کی نااہل نوکر شاہی اور ظالم حکمرانوں نے ملک میں نفاذ اردو پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 2002 میں عدالت میں نفاذ اردو کے لیے مقدمہ کیا گیا اور اس مقدمے کا فیصلہ 13سال کے بعد 8ستمبر 2015 کو عدالت عظمیٰ نے دیتے ہوئے دستور کے مطابق نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے قومی زبان کے نفاذ کو بنیادی انسانی حق قرار دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو اس کے فوری نفاذکا حکم دیا۔
عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، چیف جسٹس ظہیر جمالی اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ انگریزی زبان کو انصاف کی فراہمی میں بنیادی رکاوٹ قرار دے چکے ہیں۔ مئی 2019 میں سینیٹ نے بھی نفاذ اردو کی متفقہ قرار داد بھی پاس کی۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں عملی طور پر نفاذ اردو کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو آج 2021 کو چھے سال کو طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پاکستان کے حکمراں اردو کے نفاذ کے لیے آمادہ نہیں ہیں اور پوری دلیری کے ساتھ دستور شکنی اور توہین عدالت کی جارہی ہے۔
علامہ اقبال نے اردو کو ایمان کا درجہ دیا اور اپنی بے مثال شاعری سے اسلام کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے پیغام کو اردو کے ذریعے عام کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنی بے مثال جدوجہد کے ذریعے اسلام کے نام پر پاکستان کا حصول ممکن کر دکھایا اور ساتھ ہی انہوں نے اردو زبان کو پاکستان کی شناخت قرار دیا ۔آج بدقسمتی سے ہم ملک پاکستان میں اردو کا نفاذ نہ کر کے ان کی عظیم جدوجہد کی توہین کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اردو پاکستان کے لیے اتنی ہے لازمی اور ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کے لیے دوسرے لوازمات زندگی، قوموں کی زندگی ان کے دین، تہذیب وثقافت، علم وادب اور زبان سے ہوتی ہے۔ آج ملک پاکستان میں انگریزی زبان کا ناجائز تسلط ہے اور قومی زوال کی ایک بڑی علامتوں میں سے ایک علامت اس انگریزی کا تسلط ہی ہے جس نے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جان بوجھ کر اردو کے نفاذ میں رکاٹیں ڈالی جاتی ہیں اور عدالتی فیصلوں کو نظر اندازکیا جاتا ہے۔ ملک میں رومن اردو کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ نجی اسکولوں اور تعلیمی اداروںکے نام پر اردو کو مٹایا جارہا ہے۔ سرکاری اداروں میں مراسلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں اور ہمارے عدالتی فیصلے بھی انگریزی میں آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک غیر محسوس نفسیاتی بوجھ ڈال کر ان کی صلاحیتوںکو محدود اور مخدوش کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ اہل علم آگے بڑھے اور اپنا کردار ادا کریں۔
عمران خان کی حکومت نے ایک خوش آئند اعلان کیا کہ 5مارچ سے اتوار کے بجائے جمعہ کو ملک بھر میں ہفتہ وار تعطیل ہوا کرے گی اور جمعرات کو ہاف ڈے ہوا کرے گا۔ بلاشبہ جمعہ کی تعطیل کی بحالی احسن اقدام ہے اور یہ تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا فیصلہ اور کارنامہ ہے اور اس فیصلے کے دوررس نتائج مرتب ہوں گے۔ جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت، احترام اور برکت والے دن کی ہے۔ اسی طرح اردو زبان بھی اہل پاکستان کے لیے بڑی اہمیت کی حامل زبان ہے۔ اردو کا نفاذ اسلام اور پاکستان کی خدمت ہے۔ اردو بھائی چارگی، اخوت اور رابطے کی زبان ہے۔ عربی کے بعد یہ مسلمانوں کی دوسری بڑی زبان ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اردو کا نفاذ کر اپنی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر کے تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں اور ان کے اس اعلان سے تاریخ انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر پاکستان کے تمام وفاقی اور صوبائی نیم سرکاری اور نجی اداروں میں دفتری کاروائی سو فی صد انگریزی کے بجائے قومی زبان میں کی جائے۔ پہلی جماعت سے اعلیٰ ترین سطح تک تعلیم بشمول طب، انجینئرنگ دیگر سائنسی انتظامی اور سماجی علوم کی تعلیم اردو ہی میں دی جائے۔ عدالتیں عسکری ادارے بھی اپنا نظام تعلیم اردو میں منتقل کریں۔ تمام کاروبار ی اور سماجی ادارے پاکستان میں قومی زبان اختیار کریں۔ انگریزی کا دفتری اور تدریسی استعمال جرم قرار دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والو کو سخت سزا دی جائے۔ تاہم انگریزی کو بطور زبان پڑھنے اور پڑھانے کی عام اجازت ہو۔
دستوری اور تاریخی حقائق سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کی بیورو کریسی کسی بھی قیمت پر پاکستان میں اردو کا نفاذ نہیں چاہتی کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اردو کے نفاذ سے اشرافیہ کی دوکانیں بند ہوجائیں گی۔ عوام کو شعور اور آگہی حاصل ہوجائے گی۔ ترکی، چین جیسے ممالک نے اپنی زبان کو فروغ دے کر ہی ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے اور ان کا اپنا پورا نظام تعلیم اور نصاب تعلیم اپنی قومی زبان ہی میں ہے۔ اردو کی اہمیت مسلمہ ہے اور اس کے نفاذ اور اس کی ترویج کے لیے سب کو مل جل کر کوشش کرنا ہوںگی۔ اردو ہماری پہچان اور سرمایہ ہے۔ اردو کے نفاذکے لیے اہل درد اپنا کردار ادا کریں اور اردو کے نفاذ کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کی جائے۔ اردو کا جنم دہلی، لکھنو اور یوپی کے دیگر علاقوں میں ضرور ہوا اور اس کی آب یاری بھی وہی ہوئی لیکن آج اردو توہماری میراث ہے۔ ہمیں اردو کی ترویج اور نفاذ کے لیے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ اردو کے نفاذکے لیے جتنے ادارے اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں وہ قابل فخر اور تحسین کا باعث ہیں اس سلسلے میں جتنی اور زیادہ تنظیمیں کام کریں گی ہمیں اپنی منزل پر پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ کوشش کی جائے کہ اہل علم افراد ہی ان تحریکوں کی باگ دوڑ سنبھالیں اور ذاتی تشہیر کے بجائے عملی کام کیے جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے حکمران اور بیوروکریسی اردو کو اس کا حق دینے پر مجبور ہوجائیں اور اردو پاکستان میں عملی طور پر نافذ ہوکر وطن عزیز کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ بقول الطاف حسین حالی
’’شہد وشکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری‘‘