پاکستانی ہندو اور بھارتی مسلمان

687

پاکستان کا میڈیا خبروں کے معاملے میں پاکستان کی مثبت خبروں کو نظر انداز کررہا ہے۔ ایسا محسوس ہوا جب یہ خبر کھوج کے بعد سامنے آئی کہ بھارت منتقل ہونے والے سو سے زائد ہندو خاندان واپس پاکستان آگئے۔ کیوں کہ اُن کے وہ سارے خواب جو وہ دیکھ کر بھارت گئے تھے ٹوٹ گئے۔ یہ خاندان چند ماہ قبل ہی بھارت گیا تھا۔ لیکن بھارتی حکومت کے رویے کے باعث سخت مایوس ہوا۔ وہاں ہونے والے ناروا سلوک کی انتہائی حد یہ تھی کہ ایک ہی خاندان کے 11 افراد قتل کردیے گئے۔ باقی بچنے والے خاندانوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ان پر بھارت کی حکومت کی طرف سے دبائو تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف جاسوسی کریں انکار پر انہیں قتل کردیا گیا۔ پاکستان پہنچنے والے خاندان کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان واپس پہنچ کر بڑی خوشی ہوئی، بھارت میں اُن کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا جب کہ پاکستان میں وہ اپنی مذہبی آزادی ساتھ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں بھارتی میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش میں ہر طرح کی جھوٹی سچی خبروں کا سہارا لیتا ہے۔ پچھلے سال فروری میں کچھ خاندان سیر وتفریح اور مذہبی رسوم کی ادائیگی کے لیے بھارت گئے تو وہاں کے سیاستدانوں اور حکومتی عہدیداروں نے ٹوئٹر پر طوفان اُٹھا دیا کہ ’’چار ہندو خاندان اپنی زندگی اور مذہب کو بچانے کے لیے پاکستان چھوڑ آئے ہیں اور (وزیرداخلہ) امیت شاہ سے درخواست ہے کہ وہ انہیں جلد از جلد شہریت دے دیں۔ حالاں کہ معاملہ یہ ہے کہ بھارت میں جانے والے پاکستانی ہندو زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شہریت یا ملتی زندگی کے حق ہی سے محروم کردیے گئے۔ پاکستانی میڈیا نے اس معاملے پر خاک ڈالنے کا پورا اہتمام کیا۔ میڈیا کو ہدایات حکومت کی طرف سے دی جاتی ہیں سو، اصل معاملہ وہاں ہی گڑ بڑ ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نواز شریف کے بہت سے دوسرے جرائم کے ساتھ یہ بھی کہتی رہی کہ اُن کے بھارت سے قریبی تعلقات ہیں۔ لہٰذا کشمیر اور دیگر معاملے میں بھارت کے ساتھ ہلکا ہاتھ رکھا جاتا تھا۔ پتا یہ چلا کہ پی ٹی آئی کی حکومت خود بھی اس معاملے میں نواز شریف کی حکومت کے اتباع کرنے والی ہے۔
تازہ خبر یہ ہے کہ پاکستانی ہندو شاہراہ دستور پر احتجاج کررہے ہیں کہ پاکستان 11 ہندو پاکستانیوں کے قتل کا معاملے کو موثر انداز میں بھارت کے سامنے نہیں اُٹھا رہا۔ اس سے قبل پاکستانی ہندو برادری نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بھی اپیل کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے بھارتی حکومت کی غیر سنجیدگی اور بے حسی کا نوٹس لے۔ اس سلسلے میں درجنوں ہندو کمیونٹی نے بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے بھی احتجاج کیا۔ عدالت ِ عظمیٰ میں بھی کیس دائر کیا۔ یعنی جو بن پڑا کیا، وزیراعظم مودی کے خلاف نعرے لگائے، بی جے پی کے خلاف تقریریں کیں کہ 9 اگست 2020ء میں بھارتی ضلع جودھ پور کے ایک کھیت سے ایک ہی خاندان کی 11 لاشیں ملیں جن میں بچے بھی شامل تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ بھارت ہجرت کی نیت سے گئے تھے لیکن اب بھارتی حکومت کے مذموم رویے کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے آبائواجداد کے پاکستان میں مقیم رہنے اور بھارت نہ جانے کے فیصلے سے مطمئن ہیں۔ لیکن کچھ نہیں کیا تو وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ نے سو، میڈیا نے بھی چپ سادھ لی، ورنہ بھارت میں اقلیت کے ساتھ تو جو ہورہا ہے سو ہورہا ہے وہ تو ہندوئوں کو بھی شہریت دینے کے بجائے جاسوسی کے لیے استعمال کررہے ہیں اور جو انکار کرے تو اس کو اجتماعی قتل کی سزا دے رہے ہیں۔ یہ سب اور کوئی نہیں خود ہندو برادریاں اجتماعی طور پر کہہ رہی ہیں۔ پاکستان اگر چاہتا تو بھارت کے خلاف مضبوط محاذ بنا کر ایک طوفان اُٹھا سکتا تھا لیکن نہ عمران خان کے لبوں سے کچھ پھوٹا اور نہ وزارت خارجہ ہی نے کچھ ایکشن لیا۔
پاکستان میں ہندو برادری جس استحقاق سے رہتی ہے وہ اس طرح ان کے مظاہروں، تقریروں، مطالبوں اور پاکستان واپسی کے فیصلوں سے ظاہر ہے۔ دوسری طرف مسلمان بھارت میں انتہائی پریشان کن حالات میں رہ رہے ہیں۔ تعلیم، روزگار، تجارت ہو یا حکومتی نمائندگی کا معاملہ بھارتی حکومت اُن کی بہبود کے لیے سوچنے کی زحمت نہیں کرتی، حالاں کہ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، بھارتی حکومت کا رویہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو پریشان حال رکھا جائے۔ مزید مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے این آر سی یعنی نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لہٰذا مسلمان اپنے آبائواجداد کے کاغذات کی ڈھونڈ میں لگ گئے ہیں کیوں کہ باقی اقلیت کو ریلیف دینے کا پہلے اعلان کیا جاچکا ہے۔ ان حالات کے باوجود بھارتی مسلمان خوفزدہ نہیں ہیں پُراعتماد ہیں۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے سارے منفی ہتھکنڈے مسلمانوں کا اشتعال دلانے میں ناکام رہے ہیں۔ نفرت کے الائو کے لیے انہیں مسلمانوں کی طرف سے جوابی تشدد چاہیے تھا لیکن ہندو جنونیوں کے بھڑکاوے کے باوجود مسلمان اُن کی چال میں نہیں آئے۔ انہوں نے عقل اور علم کا دامن تھام کر آگے بڑھنے کا راستہ اختیار کیا۔ ساتھ ہی مذہب کے ساتھ تعلق مضبوط کیا، یقینا آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہ راستہ کامیابی کا راستہ ہے۔