ممانعت سود بل برائے اسلام آباد

575

قومی اسمبلی نے سودی کاروبار پر پابندی کا بل منظور کیا ہے جو صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نافذ العمل ہوگا۔ اس بل کا عنوان ’’ممانعت برائے سود بابت نجی قرضہ جات‘‘ہے جو رائے شماری کے بعد قائم کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔ بل قائمہ کمیٹی میں غور وخوض کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منظوری کے لیے جائے گا جس کے بعد ہی یہ قانون بن سکے گا۔ نجی ممبرز ڈے کے موقع پر پیش کرنیوالے اس بل کے محرک ثناء اللہ مستی خیل حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ہیں اور ان کا اپنا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ مجوزہ بل کے مطابق نجی قرضوں ، لین دین اور قسطوں پر خرید وفروخت کے معاملات پر سود وصول کرنے پر پابندی ہوگی۔ بل کے تحت کوئی بھی فرد یا گروپ کسی صورت میں بھی سود کی غرض سے قرضہ یا ایڈوانس لون فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سود پر مبنی کاروبار کرے گا۔ سود کا کاروبار کرنے والوں کو دس سال تک قید ، کم ازکم تین سال اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوسکے گی۔ بل کے اغراض ،مقاصد میں سود کی وصولی کے لیے اختیار کیے جانیوالے رویے کو’’لعنت ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ بل قانون سازی کے تمام مراحل سے گزرتا ہوا نافذ العمل قانون بن گیا تو صرف ایک شہر میں نجی شعبے کے محدود دائرے میں قرضوں ،لین دین اور کاروباری معاملات میں سود کی وصولی غیر قانونی ہوجائے گی۔ پاکستان میں معیشت کو سود سے پاک کرنے کی تحریک کئی عشروں سے جاری ہے۔ لیکن اس سمت میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا جاسکا ہے سوائے اس کے کہ بینکوں میں غیر سودی قرضوں کی متبادل کھڑکی کھول دی گئی ہے۔ مجوزہ بل کی منظوری دیتے ہوئے ہمارے قانون سازوں نے اس تضاد پر غور کیوں نہیں کیا کہ ایک ہی عمل وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی اور باقی ملک میں قانونی ہوگا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی رگوں میں سود خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اگر حرمت سود کے حکم پر عمل ہوجائے تو سرمایہ دارانہ نظام کی جڑ کٹ جائے گی ۔ یہ سود کی لعنت ہے جس نے مہنگائی اور بے روزگاری کے عذاب میں مخلوق خدا کو جکڑ کررکھا ہوا ہے۔ ہمارے حکمراں اور نام نہاد قائدین اسلامی شریعت سے مسلسل کھلواڑ کررہے ہیں ۔ زبانی دعوے اور نمائشی اقدامات تو کیے جاتے ہیں لیکن حقیقی عملی اقدامات سے گریز کیا جاتا ہے۔ وہ صاف لفظوں میں یہ کہنے کو تیار نہیں ہیں کہ خدا وررسول کے حکم پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے تمام مصائب کی جڑ سودی معیشت ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وصول شدہ محصولات (ٹیکس )کا سب سے بڑا حصہ غیر ملکی سودی قرضوں کی مد میں چلا جاتا ہے۔ ہمارے نظام معیشت پر سودی قرضوں کی لعنت کا سبب اقوام مغرب کا عالمی تسلط ہے جس نے عام آدمی کو اقتصادی غلامی میں مبتلا کردیا ہے۔ المیہ ہے کہ پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بڑی جدوجہد ہوئی لیکن وہ ناکام ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی اصل جڑ سود کی لعنت پر غور نہیں کیا گیا۔ ماہرین معیشت اس نتیجے پر تو پہنچ گئے کہ شرح سود میں اضافہ اقتصادی ظلم کا سب سے بڑا سبب ہے لیکن وہ اس کا ادارک کرنے سے محروم رہے کہ فی نفسہ سود سب سے بڑی لعنت ہے جس کی وجہ سے ایک محدود طبقے میں دولت کا ارتکاز ہوتا ہے اور غریب ، غریب تر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سود کی لعنت کو اسلامی شریعت نے اتنا بڑا جرم قرار دیا ہے جس کے مطابق حرمت سود کے اعلان کے باوجود جو شخص سودی معاملات جاری رکھتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ آج دنیا کی تمام حکومتیں عملی طور پر اس کائنات کے خالق ومالک کے خلاف برسر جنگ ہیں۔ اس حوالے سے مسلم ممالک کے قائدین اور حکمرانوں کا جرم زیادہ سنگین ہے اس لیے کہ وہ اسلام پر ایمان کا دعویٰ رکھتے ۔ اس دعوے کے مطابق قانون سازی کا حقیقی ماخذ قرآن وحدیث ہے۔ اہل پاکستان کا جرم اور سنگین ہوگیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کرکے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اصل مقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک کے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل معیشت کا قیام سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں اور قائدین نے اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے ہم ایسے دور میں زندگی بسر کررہے ہیں جس کے بارے میں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا ، جب ایک شخص بھی سود نہ کھانے والا نہیں ہوگا۔ جو شخص سود نہیں کھائے گا اس تک سود کی بھاپ ضرور پہنچے گی۔ ہم اور آپ ایسے ہی دور میں زندہ ہیں۔ ہر قسم کے اقتصادی وسیاسی ظلم کا سبب سودی معیشت ہے سود خور فرد ہویا گروہ ہو یا نظام اپنی فطرت میں سفاک اور انسانی ہمدردی سے خالی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظالموں کا طبقہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں طاقتور ہے۔ ظالموں کا یہ طبقہ انسانی ہمدردی کا کتنا ہی دعویدار ہو اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان دشمن ہے۔ ظالمانہ سودی معیشت کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد ہر اس شخص کا فرض ہے جو اقتصادی اور سیاسی ظلم کا خاتمہ چاہتا ہے۔ سودی معیشت کے سرمایہ دارانہ جال کو توڑنا چند دنوں یا مہینوں کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے وسیع تر جدوجہد ضروری ہے۔ ایک وقت تھا کہ سودی معیشت کو اقتصادی ترقی کا لازمہ خیال کیا جاتا تھا۔ لیکن یہ حقیقت دنیا پر واضح ہوچکی ہے کہ قوموں کے افلاس کا سبب بھی سرمایہ دارانہ سودی نظام ہے۔ اگر کسی ملک میں شریعت کی حکمرانی ہوگی تو لازمی طور پر اس کی اقتصادی زندگی سود سے پاک ہوگی۔ اگر سود سے پاک معیشت عملی شکل میں دنیا کے سامنے آجائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ اسلامی نظام انسانوں کے لیے کتنا بابرکت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام حکومت کے قیام کے تصور کو اقوام مغرب نے بنیاد پرستی اور سیاسی اسلام قرار دے کر اسلام کے خلاف نفرت کی مہم چلائی ہوئی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ابلیس نے مغربی سیاست دانوں کو یہ سبق پڑھایا ہے کہ شرع محمدؐ دنیا پر آشکار نہ ہوجائے۔ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے سود کی وصولی کو لعنت قرار دیا ہے اور یہ بات درست ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی کیسی لعنت میں گھری ہوئی ہے۔ اسی لعنت سے نجات کے لیے مرحلہ وار کوشش کی جانی ضروری ہے، اس کے نتائج اسی وقت نکلیں گے جب نیت درست ہوگی اب تک کی تاریخ یہ ہے کہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی سطح پر مصنوعی نمائشی اقدامات کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم ریاست مدینہ کی بات مسلسل کرتے ہیں لیکن ایک قدم بھی اس سلسلے میں سامنے نہیں آیا ہے۔ وہ یہ جان گئے ہیں کہ سودی قرضوں کی معیشت سب سے بڑی لعنت ہے۔ لیکن معیشت کی باگ ڈور ایسے ماہرین کے حوالے ہے جو غیر سودی معیشت کے راستے میں ایک قدم بھی نہیں بڑھاسکتے۔