صحافت مشن کے بجائے کاروبار بننے کا سبب سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے

2014

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) صحافت مشن کے بجائے کاروبار بننے کا سبب سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے، صحافت جن افراد کے ہاتھوں میں ہے وہ بڑے میڈیا گروپس اور اخبارات کے مالکان ہیں، ان کا اصل کاروبار تو کچھ اور ہے لیکن صحافت بھی انہیں منافع بخش کاروبار نظر آئی تو برقی صحافت کے لیے چینلز اور مطبوعہ صحافت کے لیے اخبارات شائع کیے جارہے ہیں، سرمایہ دار صحافت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں،صحافت ابتداسے کاروبار نہیں فیض کا انقلابی تھی ،یہ تو عوام الناس کی ترجمان اور شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ تھی، ایسے لوگ آج بھی ملتے ہیں جو نظریہ کو اثاثہ سمجھتے ہیں اور پیشے کو عبادت۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق،علما یونیورسٹی شعبہ میڈیاسائنس کی صدر نشین ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی اور خادم علی شاہ بخاری انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ڈین پر وفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر قاضی نے جسارت کی جانب سے کیے گئے سوال صحافت مشن کے بجائے کاروبار کیوں بن گئی ہے ؟کے جواب میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق کا کہنا ہے کہ صحافت کاروبار بننے کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے (کیپیٹلزم) جس کے اندر سرمایے کا لامحدود تصور ہے، اسے بڑھاوا دینے یا سرمایہ داروں کے تحفظ کے لیے صحافت کو استعمال کیا جا رہا ہے۔صحافت ازخود ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جو مختلف کاروباری کمپنیوں کے تابع ہوگی ۔ابلاغ عامہ کے اندر اسے کارپوریٹ میڈیا کا نام دیا گیا ہے یعنی ایسا میڈیا جو مشن کے بجائے کاروبار ہو یا وہ براہ راست پیسہ کمانے کا ذریعہ ہو،یا کسی کے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرنا ہو۔ صحافت کاروبارکے بجائے مشن پر جب آئے گی جب کوئی نظریاتی صحافت احیا ہویا صحافت کو کم سے کم اس سرمایہ دارانہ نظام کے ڈومین سے علیحدہ ہو کر خود کو پریکٹس کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ وہ بنیاد ہے کہ جس کے اوپر اس وقت پوری دنیا کے اندر صحافت اور سرمایہ کاملاپ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی خبر جو سرمایہ داروں کیخلاف ہو وہ خبر نہیں بن سکتی ،کے الیکٹرک ، بحریہ ٹائون ، ٹیٹرا پیک جیسی مثالیں موجود ہیں جن کے مسئلے میں صحافت نے بطور آگاہی کے بجائے کاروبار کو تحفظ فراہم کیا۔ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی کا کہنا تھاکہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس میں غیر جانبداری شرط اول ہے، مگر اب ہر جانبداری اقرباپروری، من پسند خبریں، معاملات اور شخصیات کو آگے بڑھانے کے صفحات شامل ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل صحافی عوام کی فکری سطح بلند کرنے اور انہیں درست معلومات کی فراہمی کو منشا سمجھتے تھے۔ اخبارات شدت پسندی کے جذبات کو اُبھارنے سے اجتناب اور بھائی چارے اور اخوت کو فروغ دیا کرتے تھے مگر اب اس کے برعکس ہے۔ پہلے صحافت ایک مشن کے تحت کام کرتی تھی اور صحافیوں کا ایک نظریہ ہوتا تھا لیکن اب صحافت جن افراد کے ہاتھوں میں ہے وہ بڑے میڈیا گروپس اور اخبارات کے مالکان ہیں، ان کا اصل کاروبار تو کچھ اور ہے مگر صحافت بھی انہیںمنافع بخش کاروبار نظر آیا تو برقی صحافت کے لیے چینل اور مطبوعہ صحافت کے لیے اخبارات شائع کیے جارہے ہیں۔ غیر تربیت یافتہ افراد جوصحافت سے نابلد ہیں انہیںبھرتی کیا گیا اور من مانی صحافت شروع کردی ۔ اب صحافت مشن کے بجائے کاروبار ہے۔چینلز کی ریٹنگ اور اشتہارات کے لیے خبریں شائع اور نشر کی جاتی ہیں۔ خبریت کے بغیر خبریں شائع ہورہی ہیں۔ اخبارات میں مصنوعی اور غیر سنجیدہ معاملات شائع کیے جاتے ہیں۔ صحافتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ اب صحافی حضرات میں ایک ہی خبر واٹس ایپ کے ذریعے موصول ہوتی ہے جسے وہ اپنے حساب سے شائع یا نشر کرتے ہیں۔ اب نہ بابائے صحافت مولانا ظفرعلی خان،محمد صلاح الدین، حمید نظامی اور فخر مرتضیٰ جیسی نہ نظریاتی صحافت ہے اور نہ ہی مشن ہے اب صحافت ایک کاروبار بن گئی ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالکبیر قاضی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافت ابتدا سے کاروبار نہیں فیض کا انقلابی تھی، شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ تھی یہ تو مقدس پیشہ تھی آج بھی خال خال ہی سہی ایسے لوگ آج بھی ملتے ہیں کہ جو نظریے کو اثاثہ سمجھتے ہیں اور پیشے کو عبادت۔ ہر وہ چیز جو بک سکتی ہے اس کے دام ضرور لگائے جاتے ہیں۔ بادی النظر میںسادہ سا کھیل ہے جو قوتیں اس شعبے سے منسلک ہیں وہ کھیل رہی ہیں ۔خبر اس لیے بکتی ہے کیونکہ لوگ اس کے سننے سے زیادہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔جس دن عوام کی دلچسپی سنسنی خیزی سے ہٹ کر سیاق وسباق پر چلی گئی اس دن سے صحافت بکنا بند ہو جائے گی بلکہ یہ بھی ایک حقیقت اور انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ عوامی نمائندے کو کبھی بھی ختم یا کم نہیں ہونے دیں گے اور صحافت ریاست کا پانچواں ستون ہی نہیں یہ ستون سیاسی قوتوں کے چھپنے کی جگہ بھی ہے۔ خبر کی تحقیق کیے بغیر یقین کرلینا معلومات کی عدم فراہمی جذبہ حب الوطنی کو مادوم ہونا ہے۔جس دن ہم بحیثیت قوم تحقیقاتی، تجزیاتی احتساب کا استعمال شروع کریں گے اس دن یہ شعبہ اصل شکل میں آجائے گا۔