بلدیہ عظمیٰ کراچی کو 51.69 فیصد خسارے کا سامنا

81

کراچی (رپورٹ :محمد انور) حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر میٹروپولیٹن کمشنر کی عدم توجہ کے باعث بلدیہ عظمیٰ کراچی کو رواں مالی سال میں مجموعی طور پر51.69 فیصد خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ میں مقرر کردہ ہدف 12 ارب 52 کروڑ 51 لاکھ روپے کی آمدنی کے بجائے صرف 6 ارب 5 کروڑ 11 لاکھ روپے کی آمدنی ممکن ہوسکی۔ اس بات کا انکشاف سرکاری دستاویزات سے ہوا ہے جس کے مطابق سال 2020-21ءکے لیے آمدنی کا ہدف 24 ارب 84 کروڑ 59 لاکھ روپے مقرر کیاگیا ہے جس میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی سے آمدنی 9 ارب 40 کروڑ 70 لاکھ روپے ظاہر کی گئی تھی۔ 6 ماہ میں ہدف کے مطابق 4 ارب 74 کروڑ 21 لاکھ روپے کی اپنے ذرائع سے وصولیابی کرنا تھی ، بدقسمتی سے بلدیہ عظمیٰ میں ریونیو کی وصولیابی کے لیے خدمات انجام دینے والے گریڈ 20، 19 اور 18 کے افسران رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران محض صرف 45 کروڑ 13 لاکھ 70 ہزار روپے متعلقہ محکموں میں وصولیابی کرسکے۔ جبکہ حکومت سندھ کی طرف سے بھی بلدیہ عظمیٰ نے 6 ارب 52 کروڑ 23 لاکھ روپے وصولیابی کا ہدف رکھا تھا اور صرف 4 ارب 81 کروڑ 91 لاکھ روپے وصول ہوسکے جو ہدف کا 89.73 فیصد ہے۔ اس ناقص وصولیابی کے باعث کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو مالی بحران کا سامنا ہے، خراب مالی صورتحال کی وجہ سے گریڈ 16 اور اس سے اوپر کے افسران کو تا حال جنوری کی تنخواہیں نہیں مل سکی ہیں۔ جبکہ لوئر گریڈ کے تمام عملے کو دسمبر اور جنوری کی تنخواہ یکمشت فروری میں مل سکیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ریونیو کی وصولیابی محکمہ لینڈ، انسداد تجاوزات، میونسپل یوٹیلیٹی ٹیکس اور چارجڈ پارکنگ تعینات افسران مبینہ طور پر ماہانہ 5 تا 45 لاکھ روپے رشوت بلدیہ عظمیٰ حکومت سندھ کے پہنچایا کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ میں ہدف پورا نہ کرنے والے کسی افسر کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی جاتی۔ حالانکہ مالیاتی امور میں نہ پورا کرنے والے افسران کے خلاف سخت کارروائی کے قوانین موجود ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ریونیو ریکوری سے تعلق رکھنے والے محکمہ کے سربراہان دیگر افسران کے تقرر مبینہ طور پر بھاری معاوضے کے عوض کیے جاتے ہیں۔ بلکہ عظمیٰ کراچی کے بیشتر افسران اب ارب پتی بن چکے ہیں۔ خصوصاً انسداد تجاوزات کے سینئر ڈائریکٹر اور محکمہ میونسپل سروسز کہ گریڈ 20 کے سربراہ جن پر نہ صرف غیر قانونی ترقی حاصل کرنے کا الزام ہے بلکہ نیب اور اینٹی کرپشن میں انکوائری ابھی چل رہی ہیں۔ ایڈمنسٹریٹر لئیق احمد یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ وہ جلد ہی آمدنی کے نئے ذریعے تلاش کرلیں گے ، لیکن فی الحال وہ بھی کامیاب ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے تاہم وہ دیگر محکموں کے افسران کو کے ایم سی میں کھپاکر ادارے پر مالی بوجھ ڈالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔