یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

805

کیا خوش نصیبی ہے میری اور آپ کی… ہم کو ختم نبوت کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملا… میرے کان بھی معطر ہوگئے، آپ کے گوش بھی معطر ہوگئے… میرے، آپ کے جسم کا رواں رواں مہکتا ہو گا۔ میں اسے لکھوں تو ہاتھ معطر۔ میں اس پر بولوں تو لب مہکیں، میں جب سنوں تو سراپا خوشبو… میرے لیے بشارت ہے کہ میں جس موضوع پر جس حوالے سے بات کروں اپنے نانا سے میرے لیے جنت کی سفارش، انور شاہ کاشمیری کروائیں گے۔ یہ میرے نہیں خود انور شاہ کاشمیری کے الفاظ ہیں۔
میں آج جو بات کروں میرا اللہ سن رہا ہے۔ فرشتے میرے گواہ ہیں۔ خود سے ایک لفظ نہیں کہتی۔ یہ بشارت ہم سب کو ملی ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے میں کوششیں تیز کر دوں، آپ کی سعی بھی بڑھ جائے۔ یہ کام ہی ایسا سعادتوں والا ہے، قدم قدم خوشخبری ہے… لمحہ بہ لمحہ بشارت ہے۔ چودہ صدیوں پہلے اس کام کی بنیاد میرے نبیؐ نے ڈالی ہے۔ سب سے پہلے مدعی نبوت کے خلاف آپؐ نے کوششیں شروع کروائیں، وصال مصطفیؐ کے بعد آپ ہی کے یارِ غار صدیق اکبر نے، مسیلمہ کذاب کے خلاف محاذ کھلوا کر یہ ثابت کیا کہ، آپؐ ہی خاتم النبیین ہیں، آپؐ کی صفت خاتم پر ڈاکا ڈالنے والا اپنی موت لکھوا کر آتا ہے۔ میرا اور آپ کا فریضہ ہے کہ جب بات میرے نبیؐ کے تاج ختم نبوت پر آئے گی تو ہم اپنے رسولؐ کے تاج کی بھی محافظت کریں اور تخت کی بھی۔ چودہ سو سال پہلے کا اسود عنسی ہو یا انیسویں صدی کا مرزا قادیانی، اسلام کا اور میرے ربّ کا قانون وہی رہے گا، ملک بدلے، سال بدلے، حالات بدلیں، جھوٹے مدعیان ختم نبوت کو جانچنے، پرکھنے اور سزا متعین کرنے کا پیمانہ ایک ہی رہتا ہے اور تا قیامت ایک ہی رہے گا۔ چودہ صدیوں پہلے جس طرح نبی کریمؐ اور صدیق اکبر نے کذابین کے خلاف محاذ کھولا، اور جس طرح 1953ء کے عطا اللہ شاہ بخاریؒ اور احمد علی لاہوری نے مرزا کے خلاف اعلان جہاد کیا، بالکل اسی طرح ہمارے دلوں میں موجود نبی کریمؐ کی محبت مجھ سے اور آپ سے کچھ ایسا ہی تقاضا کرتی ہے۔ میرے نبیؐ نے فرمایا میرے بعد تیس جھوٹے آئیں گے اور نبوت کا دعویٰ کریں گے لیکن یہ جان لو!
’’انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘
سن لو ایمان والوں! مسلمانو! اگر تمہارے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہے اگر نبی کریمؐ کے عشق سے تمہارے دل لبریز ہیں تو سن لو دنیا والوں میرا نبی نبوت میں آخری ہے۔ قادیان کے مرزا کی کوئی اوقات نہیں وہ چلے تو چپل میں فرق نہ محسوس کر پائے کہ سیدھی کون سی اور الٹی کون سی، ایک آنکھ سے کانا اور دماغی مریض استنجاء کا ڈھیلا گڑ سمجھ کر کھانے کی کوشش کرے، باتوں میں تضاد، میں کہتی ہوں اگر تم جیسا شخص نبوت کا دعویٰ نہ بھی کرتا تو بھی شریفوں کے معاشرے میں تمہاری کوئی جگہ نہ تھی اور کہاں تم نبوت کے مدعی بن بیٹھے ہو۔ تم نے تو شرافت کے معیار کو نہ پایا، نبوت کے قدموں کی دھول بھی اگر مجسم ہو تو تم پر تھوکنا پسند نہ کرے۔ تم نے تو ایک سارق ڈاکو کو بھی نہ پایا کہ وہ اپنی حدود جانتے ہیں، اور تم ملعون اپنی حدود کے مفہوم سے بھی سرا سر انجان نظر آتے ہو اور چل پڑے میری نبیؐ کے تاج وتخت پر ڈاکا ڈالنے، ننانوے سے زائد آیات اور دوسو دس احادیث گواہ ہیں وہ شاہد ہیں اس بات کی، وہ سب دلیل ہیں اس بات پر کہ میرے نبیؐ مہر ہیں نبوت پر، میرے نبیؐ کے نبوت کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد نبوت ورسالت کے دروازے بند ہو چکے ہیں کوئی نہیں داخل ہو سکتا اب کیوں کہ

فرما گئے یہ ہادی، لانبی بعدی

میرے نبیؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا کافر ہے، آپ کی ناموس پر بات آئے تو عاشقان پاک طینت کا نعرہ ہو گا

محمدؐ کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے

میرے نبی کے گستاخوں!۔

کہاں رفعت محمدؐ کی کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے

مرزا ملعون نے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے یہ براہین احمدیہ لکھنے سے پہلے گمان تھا، کوئی حیثیت قابلِ تعظیم نہ رکھتا تھا تو مرزا تمہاری جرأت کیسے ہو گئی میرے نبیؐ کی ناموس کی طرف گندی سوچ رکھنے کی مرزا!۔

مذمت کر رہا ہے تو شرافت کے مسیحا کی
امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی

مرزا قادیانی یاد رکھو!۔

گستاخی ناموس احمد کر چکے ہو تم
اور اپنی زندگی سے قبل مر چکے ہو تم

کبھی تم نے خود کو مجدد کہا تو کبھی مہدی جب تسکین قلب نہ ہوئی تو مسیح بن بیٹھے اور اپنے ناپاک وجود کو عیسیٰؑ کے وجود سے تشبیہ دینے لگے پھر بھی جب بھوکا نفس مطمئن نہ ہوا تو تم نے میرے نبیؐ کی ناموس پر نظر ڈالی، اب ہمارا ذوق ملاحظہ ہو…

نبی کے دشمن کچھ یوں ہمارا ذوق تھے سن لو
ہماری گردنوں میں عشق کا ایک طوق ہے سن لو
ہمیں دنیا کمانے کا بھی بہت شوق ہے سن لو
مگر میرے سرکار کی ناموس پر سودا نہ ہو گا

غور کریں کیا فرماتے ہیں نبی کریمؐ کے نواسے، ختم نبوت پر جان لینے اور دینے کا جزبہ رکھنے والے عطا اللہ شاہ بخاری، تحریک تحفظ ختم نبوت کے لیے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے امیر شریعت تصویر کے دو رخ بیان کرتے ہیں، عرض کرتے ہیں، ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا میں کمزوریاں تھیں، عیوب تھے، نقوش میں توازن نہ تھا، قد و قامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کردار کی موت تھی، سچ نہ بولتا تھا، معاملات کا درست نہ تھا، بات کا پکا نہ تھا، بزدل تھا، تقریر وتحریر ایسی کہ پڑھ کر متلی آنے لگے، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ اگر اس میں کمزوریاں نہ ہوتیں، وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قوی میں تناسب ہوتا، بہادر ہوتا، مرد میدان ہوتا، کردار کا آفتاب خاندان کا مہتاب ہوتا، شاعر ہوتا، فردوسی ٔ وقت ہوتا، ابو الفضل اس کا پانی بھرتا، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپیئر اور اردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا بخاری اسے نبی مان لیتا؟
فرماتے ہیں، میں تو کہتا ہوں کہ سیدنا علیؓ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے دی اور بیٹی نبیؐ نے دی سیدنا ابو بکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ بھی اگر دعویٰ کرتے تو بخاری انہیں نبی مان لیتا؟ نہیں اور ہرگز ایسا کوئی انسان نہیں یہاں انؐ کے بعد جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج امانت و رسالت جس کے سر پر ناز کرے۔ یہ امیر شریعت کے الفاظ ہیں جو فرمایا کرتے تھے کہ اگر با اختیار لوگ ختم نبوت کا کام صرف اس شرط پر کریں کہ بخاری ان کے پاؤں دھلوائے تو میں یہ کرنے پر بھی تیار ہوں۔
کیا شان تھی ان عاشقین کی کہ نہ فرمانے کی پروا نہ فرمانے والوں کی

ہستی مسلم کا سامان ہے فقط عشق رسولؐ
ہاں یہی ہستی مسلم کا سامان آج بھی
تحفظ ناموس رسالت کے لیے اہل حرم
جاں لٹا سکتے ہیں آج بھی ہاں آج بھی

میں اور آپ آج بھی کھڑے ہو کر ختم نبوت کے لیے کام کریں اور ہمارا نعرہ ہو،

نہ کٹ مروں جب تک خواجہ بطحاء کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

تو یقین مانیں روز قیامت شافع محشرؐ ہمارے لیے ہار لے کر کھڑے ہوں گے کہ میرے غلاموں نے دنیا میں میری ناموس کی حفاظت کی ہے، میں آج ان کی جہنم سے حفاظت کروں گا۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں