حلیم عادل کے نام پر وقت کا ضیاع

320

پی ٹی آئی کے ایک رہنما حلیم عادل شیخ کی ضمنی الیکشن کے موقع پر قانون کے برخلاف حرکات کے الزام میں گرفتاری پر حکومت سندھ اور مرکز کے درمیان مسلسل رسہ کشی جاری ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخاب جیت لیا ہے ورنہ حلیم عادل شیخ کی شکل دیکھ کر لاکھوں لوگ ووٹ ڈالنے آرہے تھے۔ دوسری طرف سندھ حکومت اور انتظامیہ یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اس نے دنیا کا سب سے بڑا مجرم پکڑ لیا ہے۔ اب اس ایک شخصیت کے معاملے پر اخبارات، ٹی وی، اسمبلی ہر جگہ عوام کا وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ جس ملک میں سیکڑوں نہیں ہزاروں افراد جرم بے گناہی میں تھانوں اور جیلوں میں سڑ رہے ہوں ان میں سیاسی کارکن بھی ہوں اور عام غریب آدمی بھی ان کے معاملے پر کبھی ایسا ہنگامہ نہیں اٹھتا۔ اصل حق تو ان لوگوں کا ہے جن کا ذکر کیا گیا۔ حلیم عادل شیخ پر جو الزامات عاید کیے گئے ہیں ان میں تو کوئی ایسا سنگین الزام بھی نہیں کہ انہیں مسلسل گرفتار کرکے رکھا جائے۔ یہاں سرعام لوگوں کو گولیاں مار کر قتل کرنے والا مزے سے ضمانت کراکر چلتا بن جاتا ہے۔ سیکڑوں لوگوں کے قتل کا ملزم عدم ثبوت کی بنیاد پر رہائی پاجاتا ہے اور بے چارا غریب ضمانت کی رقم یا اپنی بے گناہی کا ثبوت نہ لانے پر تھانے اور جیل میں سڑتا ہے۔ عدالت تاریخ دیتی ہے یا کمینٹس۔ اب گورنر سندھ اور پی ٹی آئی وزرا نے حلیم عادل کی گرفتاری پر آئی جی کو ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔ گویا اب آئی جی پولیس اپنی کارروائیاں گورنر اور پی ٹی آئی وزرا سے پوچھ کر کریں گے۔ اور عدالتیں چھٹی پر چلی جائیں گی۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کے لیے تو پی ٹی آئی اور عمران خان سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ گورنر کو روک سکو تو روک لو… ورنہ یہ پی ٹی آئی کی تباہی کا ایک اور سبب بن جائے گا۔گورنر سندھ اور وفاقی وزرا نے آئی جی کو ہٹانے کا مطالبہ جس بنیاد پر کیا ہے اس کو کسی طور پر جائز نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس قسم کے مطالبات پر تو ان کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ یہ صوبے کا نظام خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسا ہونے لگے تو کسی صوبے میں کوئی پولیس افسر ایک دن سے زیادہ نہیں ٹہر سکے گا۔ اس قسم کے مطالبات سے پی ٹی آئی کی اصل ذہنیت عیاں ہوتی ہے۔