کتاب سرسید احمد خان تاریخ کی میزان میں شائع ہوگئی

646

(کراچی اسٹاف رپورٹر)ممتاز صحافی روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر شاہنواز فاروقی کی کتاب سر سید احمد خان تاریخ کی میزان میں شائع ہو گئی ہے۔ اس کتاب میں شاہنواز فاروقی نے سرسید کی فکری اور تہذیبی سوچ اور تحریروں کا علمی جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ کتاب لکھنے سے قبل اندازہ نہیں تھا کہ سر سید کا جو ہیولا تخلیق کیاگیاہے اور جو کچھ مسلمانان بر صغیر کو پڑھایا اور بتایا جاتا رہا ہے وہ سارے کا سارا مصنوعی تھا۔ شاہنواز فاروقی نے 27 بڑے موضوعات منتخب کر کے ان کی فکر اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ مصنف نے لکھا کہ اگر سر سید محض ایک آدمی ہوتے تو ان پر کتاب لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن ان کا مسلم معاشرے پر اثر ہے اور اس حقیقت کی روشنی میں ان کی فکر کی اصل کو سامنے لانا بہت ضروری تھا۔ کتاب کی اشاعت کا اصل مقصد یہی ہے کہ جب تک مسلم معاشرہ شخصیت کے حصار سے نہیں نکلے گا وہ کبھی روحانی علمی، تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے بالغ نہیں ہو سکے گا۔ اس کتاب میں شاہنواز فاروقی نے سر سید کے بارے میں بہت سی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کیا ہے مشرق و مغرب کے مکالمے کے مفروضے کو ان ہی کی تحریروں کے اقتباس پیش کر کے رد کیا ہے۔ خصوصاً انگریزوں کے غلبے کو مسلمانان بر صغیر کیلئیرحمت قرار دینا۔ انگریزوں ہی سے بھلائی کی توقع رکھنا۔ ملکہ کے زیر سایہ رہنے پر خداکا شکر ادا کرنا۔ علوم مشرقی سے انکار، علم حدیث سے انکار ،قرآن کے معجزات اور اجماع سے انکار کے حوالے سے بھی سر سید کے افکار کا آپریشن ان ہی کی تحریروں سے کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خلفائے راشدین کے بارے میں سر سید کی تحریریں اس قدر زہریلی تھیں جن کا علم مسلمانوں کو ہے ہی نہیں۔ اس کتاب میں سر سید کے تصورِ خدا، تصورِ قرآن و حدیث، تصورِ صحابہ ?، خواتین کی تعلیم وغیرہ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ سب سے بڑھ کر غلط فہمی دور کی گئی ہے کہ سرسید کا دو قومی نظریے سے کوئی تعلق تھا ان کا دو قومی نظریہ زبان سے تعلق رکھتا تھا مذہب سے نہیں اور اصل دو قومی نظریہ مذہب کی بنیاد پر ہے۔ بہر حال یہ کتاب علمی جستجو رکھنے والوں کے لیے نہایت اہم ہے اور اس کا مطالعہ ذہن کے دریچوں کو کھولنے کا کام کرے گا۔