صوبائی، لسانی اور مسلکی تعصبات سے ملکی سلامتی کوخطرات لاحق ہیں

438

اسلام آباد (میاں منیر احمد) صوبائی، لسانی اور مسلکی تعصبات سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیںاور اس سے سی پیک جیسا منصوبہ بھی شدید متاثر ہو رہا ہے ‘جمہوریت کا گلا دبانے سے تعصبات جنم لیتے ہیں‘ ضیا آمریت کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے‘ مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دے کرکراچی کو خون میں نہلا دیا گیا‘ ملک میں کوئی پاکستانی نہیں‘ شیعہ سنی فسادات نے ہمارے دشمنوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کے مرکزی فنانس سیکرٹری ابن رضوی، پاکستان ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی اولمپئین رائو سلیم ناظم، دانشور، کالم نگار، کشمیر کے لیے عالمی تھنک ٹینک آئی آئی ایس ایس آر کے ڈائریکٹر جنرل جاوید الرحمن ترابی، بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ جنرل اور عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل، خواجہ سرا کی ملک گیر تنظیم کی سربراہ الماس بوبی اور اسلام آباد بار کونسل کے سینئر ممبر ندیم اختر ہرل ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان کی سیاست میں صوبائی، لسانی اور مسلکی تعصبات کا کیا کردار ہے‘‘؟۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ ہمارے ملک کی سیاست میں صوبائیت، لسانی اور مسلکی اثرات موجود ہیں اور ان کا کردار بھی ہمیں نظر آتا ہے‘ انہی مسائل کے باعث ہمارے ملک کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں‘ دیگر صوبے پنجاب کے خلاف شکایت کرتے رہے ہیں‘ صوبائیت کے باعث ہی آئین میں18ویں آئینی ترمم لائی گئی جس کے تحت صوبوں کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ‘ یہ بھی اہم مسئلہ ہے کہ جو محکمے مرکز سے صوبوں کے حوالے کیے گئے ہیں ان محکموں میں اب کوئی سمت متعین نہیں ہے اور صوبے ان کے لیے اپنی ذمے داری کماحقہ نبھا نہیں رہے اور یہی وجہ ہے کہ صوبے 18ویں ترمیم کے ثمرات حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک مسلکی تعصب کی بات ہے تو ہزارہ کمیونٹی کی وجہ سے جو مسائل پیش ہوئے اس سے دنیا میں ہماری مشکلات بڑھی ہیں اسی طرح شیعہ، سنی مسلکی مسائل ہیں اور اس کے ساتھ کہیں بلوچ، پشتون مسائل بھی ہیں‘ یہ ایسے مسائل ہیںجن کی وجہ سے ہماری ملکی سیاست فالٹ لائن پر ہے اور اب یہ مسئلہ سی پیک سے بھی جڑ گیا ہے‘ اس کا سارا نقشہ اٹھا کر دیکھ لیں اس کے آس پاس اسی طرح کے مسائل ہیں‘ شاہراہ قراقرم کا روٹ بھی دیکھ لیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ صورت حال بہت خطرناک ہے اسی طرح چشمہ کے علاقے میں ایک نیا مسئلہ درپیش ہے کہ وہاں حیاتی اور مماتی کا مسئلہ چل رہا ہے‘ اہل سنت میں اہل دیوبند اور بریلوی مکتبہ فکر کے درمیان مسلکی اختلافات ہیں‘ بلوچستان میں ہمیں بلوچ اور پشتون مسائل ملتے ہیں اور پھر یہیں سے بات اور آگے بڑھ کر بلوچ لبریشن آرمی کی شکل اختیار کرلیتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے اہل دانش ایک جگہ بیٹھیں اور سر جوڑ کر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کے مرکزی فنانس سیکرٹری ابن رضوی نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں 1980ء کے بعد صوبائی، لسانی اور مسلکی سیاست نے بہت بڑے پیمانے پر سر اٹھایا ‘ملک میں جب جمہوریت کا گلا دبا کر ڈکٹیٹرسسٹم لایا گیا اور جب سیاسی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر ملک میں یہ سب چیزیں سر اُٹھاتی ہیںجیسا کہ ضیا کے دور میں یہ ہوا جس کا خمیازہ آج تک پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے‘ پورے ملک میں کوئی بھی شاید پاکستانی نہیں‘ یہاں کوئی پنجابی، پٹھان ہے‘ کوئی سندھی، بلوچی ہے‘ کو ئی شیعہ، سنی ہے تو کوئی وہابی، دیو بندی اور بریلوی ہے‘یہ جان کر کیا گیا ہے اس ملک سے لبرل سیاست کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے آج ملک کا یہ حال ہے‘ تمام طاقت ور حلقے ملک میں صوبائی، لسانی اور مسلکی تعصبات سے خوف زدہ ہیں‘ ان لوگوں کو طاقت ور بنانے میں غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کا بڑا ہاتھ ہے‘ صرف اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے ان سب کو 1980ء اور 2000ء کی دہائی میں متحد ہونے کا پورا موقع دیا گیا۔ رائو سلیم ناظم نے کہا کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے‘ تب سے اس طرح کے تعصبات کبھی الگ الگ اور کبھی متحد ہوکر سر اٹھاتے رہے ہیں اور جس سے ملکی وحدت کو نقصان ہوتا ہے جب ملک میں ون یونٹ توڑا گیا تو ملک میں صوبائیت نے جنم لیا اور ملک میں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتون کی آوازیں آنا شروع ہوئیں‘ کبھی کبھی تو صوبائیت کی بنیاد پر ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں جس سے ہماری قومی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں‘ کبھی کہا جاتا ہے کہ جاگ پنجابی جاگ، کبھی کہا جاتا ہے کہ ڈیسو نہ ڈیسو سندھ نہ ڈیسو‘ اسی طرح ماضی میں آزاد بلوچستان کے بھی نعرے لگے‘ غرض یہ کہ تمام تعصبات ملک کی سلامتی کے لیے خطرات ہیں‘ ایسی باتیں تو ملک کے سینئر سیاست دانوں کی جانب سے بھی کہی جاتی رہی ہیں‘ کبھی مسلکی طور پر اسلام کو درمیان میں لے آتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے ‘بعض اوقات تو ان موضوعات پر کتابیں تک لکھی جاتی ہیں اور فنڈنگ بھی کی جاتی ہے‘ لسانیت کی بنیاد پر سندھی، بلوچی، پنجابی نعرے لگتے ہیں‘ ملکی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ قومی سیاست میں ایسے تعصبات نہ ہوں‘ سیاست دانوں کو بھی چاہیے کہ وہ جمہوریت کی بات کریں اور تعصبات سے گریز کریں‘ ملک کی سیاست تعلیم، صحت عامہ، روزگار، ملکی دفاع اور سلامتی کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کرہونی چاہیے‘ تعصبات سے ملک کمزور ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ جو حق اس ملک کا ہم پر ہے‘ وہ ہم ادا نہیں کر رہے ہیں۔ جاوید الرحمن ترابی نے کہا کہ پاکستان کی سیاست، صوبائی، لسانی اور مسلکی تعصبات کا اگر منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ کردار انتہائی منفی رہا ہے‘ شروع دن ہی سے ان تعصبات کی سیاست نے پاکستان کی وحدت کو کمزور کیا بلکہ اسے پارہ پارہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ تعصبات کی سیاست نے ایک طرف مہاجر قومی موومنٹ کو جنم دیا جس نے کراچی کے امن کو تہ بالا کردیا اور روشنیوں کے شہر کو پچھلی3 دہائیوں سے آگ اور خون میں نہلایا‘ دوسری جانب بلوچستان آج بھی ان تعصبات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے ‘ اگر ہم مسلکی تعصبات کی بات کریں تو انہوں نے نہ صرف قومی وحدت کو پارہ پارہ کیا بلکہ سیاست کو آگ اور خون کا کھیل بنا ڈالا‘ کہیں شیعہ، سنی فسادات اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کے فتوے کے ذریعے سے جنت کے حصول نے پاکستان کے دشمنوں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں نعروں کی بنیاد بہت کمزور ہے اور ملکی سیاست میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے اور پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس جانب توجہ دے تاکہ میں ملک میں ایک قومی سوچ کے ساتھ سیاست پروان چڑھے‘ لسانیت کی سیاست نے ملک کے امن کو بھی نقصان پہنچایا ‘ بلوچستان جیسا حساس صوبہ آج بھی ان مسائل کا شکار ہے۔ الماس بوبی نے کہا کہ یہ صورت حال بہت خطرناک ہے‘ صوبائی، لسانی اور مسلکی اختلافات کی وجہ سے ملک کمزور ہو رہا ہے‘ اہل دانش سر جوڑ کر ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ ندیم اختر ہرل ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسی باتیں تو ملک کے سینئر سیاست دانوں کی جانب سے بھی کہی جاتی رہی ہیں‘ مسلکی فنڈنگ بھی کی جاتی ہے‘ سیاست دانوںکو بھی چاہیے کہ وہ جمہوریت کی بات کریں تعصبات سے ملک کمزور ہوتا ہے۔