سینیٹ انتخابات اوربلوچستان – جلال نورزئی

300

ایوانِ بالا کے مارچ2021ء کے انتخابات کی تیاریاں بدنامی اور بدعنوانی کے قصے لیے شروع ہوچکی ہیں۔ نئی کہانیاں سامنے آئی ہیں اور آئندہ بھی کہانیاں متوقع ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار نامزد کرچکی ہیں۔ عجیب یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے ایک غیر معروف کاروباری شیخ عبدالقادر کو جنرل نشست پر ٹکٹ دے کر کوئٹہ انتخاب جیتنے کے مشن پر بھیج دیا تھا۔ یہ صاحب اگرچہ کوئٹہ کے رہائشی رہے ہیں، یہیں سے وکالت کی ڈگری لی اور جامعہ بلوچستان سے ماسٹر کیا ہے، تاہم طویل عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ وہیں تعمیراتی شعبے میں کاروبار کررہے ہیں۔ یعنی دولت مند ہیں۔ مارچ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے جو تیکنیکی وجوہات کی بنا پر مسترد ہوگئے تھے۔ اُس وقت انہیں نون لیگ کے اُن منحرف ارکان کی حمایت حاصل تھی جنہوں نے بعد میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبدالقادر نے ’باپ‘ سے تعلق بنا رکھا تھا، اور اب تحریک انصاف سے قربت پیدا کرلی۔ تحریک انصاف کے بعض افراد نے انہیں عمران خان اور پارٹی کے دوسرے سرکردہ رہنمائوں سے بالمشافہ متعارف کرایا، یہاں تک کہ انہیں کوئٹہ سے سینیٹ ٹکٹ دلوانے میں کامیاب ہوئے۔ بازگشت ہے کہ ابتدائی ایک دو حکومتی شخصیات پر بھاری نوازشات بھی کررکھی ہیں، جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ دونوں اس وقت ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں کلیدی عہدوں پر موجود ہیں۔ بلوچستان کے اندر پی ٹی آئی کے مختلف سطح کے ذمہ داران نے پارٹی قیادت کے طرزِعمل پر خفگی کا اظہار کیا تو وزیراعظم عمران خان نے فیصلے سے رجوع کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر پارٹی کے ایک دیرینہ کارکن ظہور آغا کو سونپ دیا۔ شیخ عبدالقادر کوئٹہ کے بڑے ہوٹل میں براجمان تھے، عمران خان کا فیصلہ ان پر بجلی بن کر گرا۔ یہ اتنے جری تھے کہ تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اور دوسروں پر برسے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹ واپس لیے جانے کے بعد بھی شیخ عبدالقادر پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ آزاد حیثیت سے نئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا دیے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اِس بار حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ )کے اراکینِ اسمبلی سکندر عمرانی اور لیلیٰ ترین ان کے کاغذاتِ نامزدگی کے تجویز اور تائید کنندہ بنے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صاحب نہایت ہی اعتماد اور اطمینان کے ساتھ کوئٹہ آئے ہیں، اور انہیں ’باپ‘ کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اراکینِ اسمبلی کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ یقیناً یہ حمایت کسی نظریے اور اعلیٰ سیاسی اقدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نوازشات اور دولت کے بل بوتے پر ہے۔ موصوف نے اپنے بارے میں رائے عامہ ہموار رکھنے کی خاطر بعض صحافیوں کو بھی خوش کررکھا ہے۔

پی ٹی آئی کے لیے عبدالقادر مشکل بن گئے ہیں۔ جبکہ ایک اور مشکل صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے بھی اپنے بیٹے سردار خان رند کو امیدوار لاکر پیدا کردی ہے۔ اس صورت حال میں پی ٹی آئی کے اپنے امیدوار ظہور آغا کا کامیاب ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ایسا ہوا تو یقیناً تحریک انصاف بالخصوص وزیراعظم پاکستان عمران خان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عجب یہ بھی ہوا کہ خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والی ستارہ ایاز کو بھی بلوچستان سے ٹکٹ دلوا دیا گیا ہے۔ ستارہ ایاز کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا۔ 2015ء میں پشاور سے سینیٹر بنی تھیں۔ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی اور بعد ازاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق پارٹی فیصلوں سے بغاوت کرکے مقتدرہ کی آغوش میں چلی گئیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے انہیں اکتوبر 2018ء میں پارٹی سے خارج کردیا، البتہ ڈی سیٹ نہیں کیا گیا۔ گویا انہیں اُس وفاداری کے صلے میں ٹکٹ دیا گیا ہے۔ جبکہ بلوچستان میں ’باپ‘ کی شکل میں آمنا و صدقنا کہنے والی جماعت موجود ہے اور تحریک انصاف کے بلوچستان میں سات اراکین بھی اسی خو اور ڈھنگ کے حامل ہیں۔ یقیناً بدعنوانی اور جمہوری اقدار کی پامالی کی یہ دو بڑی نظیر ہیں۔ تماشے اور بھی ہوں گے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی ہرگز شفافیت سے منتخب نہیں ہوئے، بلکہ یہ دولت کی ریل پیل کا کرشمہ تھا۔ ملک کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کے مالک احمد خان خلجی کا منتخب ہونا بھی دولت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے جنرل نشست پر چھ امیدواروں میر سرفراز احمد بگٹی، منظور احمد کاکڑ، اورنگزیب جمالدینی، ستارہ ایاز، آغا عمر احمد زئی اور کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ اورنگزیب جمالدینی ’باپ‘ کی جانب سے ایک اور غیر معروف انٹری ہے۔ ٹیکنو کریٹس پر سعید احمد ہاشمی، منظور احمد کاکڑ، ڈاکٹر نواز ناصر، نوید کلامی… اقلیتی نشست پر ایم پی اے دھنیش کمار، خلیل بھٹو… خواتین کی نشست پر شانیہ خان، ثمینہ ممتاز اور کاشفہ گچکی کو نامزد کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے جس کے اسمبلی میں چار اراکین ہیں، نواب زادہ عمر فاروق کاسی کو امیدوار نامزد کیا ہے۔ اتحادی جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے فقط خواتین کی نشست پر عاطفہ صادق کو نامزد کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے اسمبلی میں محض دو ارکان ہیں۔ تیسرے رکن سید احسان شاہ نے پارٹی سے راہیں جدا کرکے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے الگ جماعت بنالی۔ آخر الذکر دونوں جماعتوں سے بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل رابطے میں ہے۔ حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جے یو آئی نے مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا خلیل احمد بلیدی، کامران مرتضیٰ، آسیہ ناصر اور ہیمن داس کو نامزد کررکھا ہے۔ حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے پارٹی کے سینئر رہنما، قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ، قاسم رونجھو، حسین واڈیلہ، طاہرہ احساس جتک، شمائلہ اسماعیل اور سنیل کمار کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کا اسمبلی میں ایک رکن ہے۔ آزاد رکن نواب اسلم رئیسانی بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں۔

سردست حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے پوری طرح کام کریں گی۔ جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن اسمبلی گہرام بگٹی ’باپ‘ پارٹی کے سرفراز بگٹی کو ٹکٹ دینے پر معترض ہیں۔ نون لیگ کے واحد رکن ثناء اللہ زہری پارٹی سے وابستگی ختم کرچکے ہیں۔ چناں چہ اس منظرنامے میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان کے بارے میں شبہات موجود ہیں کہ آیا وہ پارٹی فیصلوں کی ہی پاسداری کریں گے؟ بہرحال کامل اعتبار کسی بھی جماعت کے ارکان پر نہیں کیا جاسکتا۔

۔ تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند اپنے بیٹے سردار خان رند کو پارٹی ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ سردار یار محمد رند دراصل اپنے ارکانِ اسمبلی پر اثر رسوخ نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان نے انہیں روزِ اول سے بے اختیار بنا رکھا ہے۔ سینیٹ ٹکٹوں کے حوالے سے بننے والے پارلیمانی بورڈ تک میں انہیں نہیں لیا گیا تھا، حالاں کہ پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو مشاورت میں شامل کیا جانا دستوری و تنظیمی لحاظ سے بھی لازم تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ سردار یار محمد رند اس سلوک پر خاموش کیوں ہیں۔

خلاصہ یہ کہ بلوچستان کے اندرحزبِ اختلاف کی جماعتوں سے ہٹ کربعض جماعتوں اور ارکان پرزور اور زر غالب ہے۔

(This article was first published in Friday Special)