قوانین کی پاسداری شعار بنانا ہوگا

333

پیارے نبی ؐ بعثت کے وقت بھی انسان کئی طبقات میں تقسیم تھے جس کے باعث قومیں کئی تضادات کا شکار تھیں معاشرے کے طاقتور افراد کمزور طبقے کو اپنا غلام بناتے تھے اور نسل در نسل اپنے رحم وکرم پر رکھتے تھے۔ طاقتور طبقے کا من مانا قانون کمزور طبقے کے مقدر کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔ اللہ کے پیغمبرؐ نے بنی نوع انسان کو آفاقی تعلیم سے سرفراز کرتے ہوئے فرمایا: ’’کائنات کے کسی بھی حصے میں یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنے جیسے انسان کی تکریم کی پامالی کرتا پھرے، خالق کائنات نے انسان کو صاحب تکریم کی حیثیت دے کر دُنیا میں پیدا کیا ہے، لہٰذا عربی ہو یا عجمی گورا ہو یا کالا کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں، انسانی حقوق کا بہترین درس اسلام کے پاس موجود ہے۔ انسان کے بنیادی حقوق، انفرادی یا اجتماعی حقوق، خواتین و بچوںکے حقوق، اقلیتوں وغیرمسلموںکے حقوق، سینئر شہریوں و معذوروںکے حقوق غرض یہ کہ اسلام نے مکمل اور جامع انداز سے انسانی حقوق کا احاطہ کردیا ہے۔ جدید دور میں انسانی حقوق صرف لکھنے، کہنے یا ترغیبی یا تحسینی نوعیت کی حد تک محدود ہوگئی ہے جبکہ اسلام محض ترغیب و تحسین تک اکتفاء نہیں کرتا بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔
10دسمبر کو دُنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کومنانے کا مقصد انسانوں کے حقوق کی قدرو قیمت کو اُجاگر کرنا ہوتا ہے۔ 10دسمبر 1948کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی منظوری دی اس تاریخی کارنامے کے بعد اقوام متحدہ نے اپنے ارکان ممالک پر زور دیا کہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین پر عملدرآمد کروایا جائے۔ چونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی کے نتائج بھیانک اور وحشیانہ اشکال میں ظاہر ہوتے ہیں، عام انسانوںکی بلند ترین خواہش ہوتی کہ ہر بنی نوع انسان کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی مکمل آزادی ہو۔
اقوام متحدہ کے رکن ملکوں سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ ہر ملک اشتراک عمل سے اُصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا بِلا تفریق احترام کریں گے اور کروائیں گے۔ تمام ارکان ممالک نے یہ عہد بھی کر رکھا ہے کہ ہر انسان کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہوگا۔ عوام کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوگی۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوںگے۔ اسی طرح رنگ، نسل، ذات پات اور لسان کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا۔ کسی بھی فرد کو ظالمانہ طریقے سے نہ تو گرفتار کیا جائے گا اور نہ ہی اُس پر تشدد کیا جائے گا۔ کسی بھی ملزم کو اُس وقت تک بے قصور سمجھا جائے گا جب تک کہ اُس پر مکمل طور پر جرم ثابت نہیں ہو جاتا۔ سماجی رکن کی حیثیت سے ہر فرد کو معاشرتی تحفظ کا حق حاصل ہے اور یہ بھی حق ہے کہ وہ ملک کے نظام و وسائل کے مطابق قومی کوشش اور بین الاقوامی تعاون سے اپنے لیے اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی حقوق حاصل کرے جو اُ س کی آزاد انہ نشو نما کے لیے ضروری ہے۔ ہر فرد کو کسی تفریق کے بغیر مساوی کام کے لیے مساوی معاوضے کا حق حاصل ہوگا۔ ہر فرد اپنی قابلیت کی بنیاد پر معقول مشاہرے کا حق رکھتا ہے جو اس کے اور اس کے خاندان کے لیے باعزت زندگی گزارنے کا ضامن ہو۔ ہر شخص کو اپنے مفاد کے بچاؤ کے لیے انجمنیں قائم کرنے یا کسی بھی انجمن میں شامل ہونے کی آزادی حاصل ہوگی۔ ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا، کم سے کم ابتدائی درجے کی تعلیم مفت اور جبری ہوگی، لیاقت کی بنیاد پہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے جس میں ریاست اُس کی مدد گار ہوگی۔
ہمارا مقصد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانین یا اسلامی انسانی حقوق کے چارٹر (میثاق مدینہ) کا تقابلی جائزہ لینا نہیں ہے۔ دونوں صورتوں میں فلاح کا رُخ اُس پگڈنڈی کی طرف ہے جس کا راستہ تعمیر و ترقی کی جانب جاتا ہے۔ لیکن شاید ہمیں ترقی و تعمیر کی ضرورت نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وسائل سے مالامال مسلم ممالک کا واحد ایٹمی طاقت پاکستان میں اقوام متحدہ یا مثاق مدینہ کے قوانین کے مطابق انسانوں کو حقوق حاصل ہیں؟ تو جواب ہوگا نفی میں کیونکہ پاکستان کے طول وعرض تک کا جائزہ لیا جائے تو ہر سو ختم نہ ہونے والی نا انصافیوں کا سلسلہ نظر آئے گا ایسی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ انسانیت لرز جاتی ہے انسانی حقوق کی پامالیوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ یہاںغریب ومتوسط طبقے کی زندگیوں کو اجیرن بنانے والے بااثر طبقہ اشرافیہ سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا مواخذہ کون کر سکتا ہے، کون پوچھے گا ان سے کہ قومی اداروں کو دھول چاٹنے پر مجبور کس نے کیا، تشدد، درندگی، بھوک وافلاس کس کے باعث ہے؟ یہاں کے سرد مہر حکمرانوں سے عوام کی خیر خواہی کی کوئی توقع نہیں انہوں نے مفادات کے تکیوں کو سینے سے لگا لیا ہے قوم کو یکجا کرنے کے بجائے تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ کس کس کا نام لیا جائے کہ سیاہ نامہ طویل ہے اس رعایت یافتہ طبقے نے جو مجنونانہ و مجرمانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال دیتے ہوئے ہم شرمندہ ہیں جس ملک میں انسانی حقوق کے قانون کی دھجیاں تارتار کی جارہی ہوں اور جو معاشرہ افلاس اور جہالت کے دردناک عذاب میںمبتلا کردیا گیا ہو وہ صحت مند خواب دیکھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہم تعمیر وترقی کی بات تو کرتے ہیں لیکن ہم قومی حیثیت سے افلاس و جہالت کے جس نقطے پر کھڑے ہیں وہاں سے تعمیر و ترقی کی منزل دور کہیں بہت دور تلک بھی نظر نہیں آتی، اس کے بارے میں سوچنا بھی اپنے آپ کو ہمت شکنی اور زبوں ہمتی کے آزار میں مبتلا کرنا ہے۔ تعمیر و ترقی اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک سُرخ و سبز کی تقسیم کے بغیر قوانین کی پاسداری کو اپنا شعار نہیں بنالیتے۔