مسلم اور غیر مسلم تعلقات کی تاریخ

452

صدر مملکت عارف علوی نے اسلام آباد میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صرف توہین رسالت کے مسئلے ہی پر کلام نہیں کیا۔ انہوں نے مسلم اور غیر مسلم تعلقات کی تاریخ کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ انہوں نے فرانس کی موجودہ قیادت سے کہا کہ وہ مسلمانوں کو محاصرے میں لینے کے طرزِ عمل سے باز رہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف قوانین تبدیل کیے جارہے ہیں جس سے صورتِ حال ابتر ہورہی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ مسلمان جب تک دنیا کی سپر پاور رہے انہوں نے مسلم معاشروں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ مسلمانوں نے اسپین کے وسیع علاقے پر چھ سو سال تک حکومت کی لیکن مسلم اسپین میں عیسائی اور یہودی شان کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔ مسلم اسپین کے عیسائیوں اور یہودیوں میں مفکر تھے، فلسفی تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، ماہرین طب تھے، تاجر تھے، دربار سے وابستہ لوگ تھے۔ یعنی مسلم حکمرانوں نے زندگی کے کسی شعبے میں مذہبی اقلیتوں کو دبانے اور کچلنے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے جس شعبے میں آگے بڑھنا چاہا انہیں آگے بڑھنے دیا گیا۔ لیکن جیسے ہی اسپین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلا عیسائیوں نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائی بن جائو۔ یا اسپین چھوڑ دو یا پھر مرنے کے لیے تیار رہو۔ بدقسمتی سے عیسائی حکمرانوں نے یہ تینوں کام کیے۔ انہوں نے مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بھی بنایا جو مسلمان عیسائی نہ بنے انہیں یا تو قتل کردیا گیا یا اسپین چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ ایسا کرتے ہوئے عیسائیوں کو خیال تک نہ آیا کہ وہ 600 سال تک مسلمانوں کی حکمرانی میں کس طرح مزے کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے مسلم اسپین میں یہودیوں پر رحم و کرم کی انتہا کردی مگر یہودیوں نے مسلمانوں کے اس سلوک کے جواب میں جو کچھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہودیوں نے عالمی طاقتوں کی سازش کے تحت فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے عرب مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا۔ اس وقت 50 لاکھ سے زیادہ فلسطین جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کا یہ حال ہے کہ اسرائیل اور اس کی یہودی قیادت نے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر قابض ہے اور مسلمان اسرائیل کی مرضی کے بغیر قبلۂ اوّل میں نماز بھی ادا نہیں کرسکتے۔ اسرائیل نے اس طرح غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ غزہ کو خود مغرب کے ذرائع ابلاغ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل جب چاہتا ہے اس جیل پر جنگ مسلط کردیتا ہے۔ وہ گولہ باری اور فائرنگ کرتے ہوئے بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشتا۔ 1990ء کی دہائی کے وسط میں امریکا، یورپ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور عرب ریاستوں نے یاسر عرفات کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کریں۔ مگر اسرائیل نے اس امن معاہدے کو بھی نہ چلنے دیا۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے یاسر عرفات کو تین سال تک ان کے دفتر میں محصور رکھا اور بالآخر انہیں زہر دے کر مار ڈالا۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ یہ اتنا بڑا عرصہ تھا کہ مسلمان اس عرصے میں اگر اپنی طاقت کا دس فی صد بھی استعمال کرتے تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا۔ مگر مسلمانوں کا دین انہیں تعلیم دیتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ چناں چہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک کسی ایک ہندو کو بھی زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش نہیں کی۔ برصغیر میں جو کروڑوں ہندو مسلمان ہوئے وہ صوفیا اور علما کی کوششوں اور ان کی تعلیمات کا حاصل ہیں۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوئوں کے مذہب اور ان کی تہذیبی اور سماجی زندگی میں کوئی مداخلت نہ کی۔ چناں چہ مسلمانوں کے عہد میں ہندوازم پوری طرح محفوظ رہا۔ ہندو اپنے دھرم پر آزادی کے ساتھ عمل کرتے رہے۔ وہ اپنا لباس پہننے میں آزاد تھے، ہندی ہندوئوں کی زبان کی حیثیت سے زندہ رہی اور ترقی کرتی رہی۔ ہندو الزام لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر نے ان پر بڑا ظلم کیا اور ان کے مندر گرائے لیکن اب مغرب کے بعض دانش وروں نے اپنی تصانیف میں گواہی دینی شروع کی ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر ہرگز تنگ نظر نہ تھا۔ حالیہ تحقیق کے مطابق اس کے دربار میں سنسکرت کو ایک درباری زبان کا درجہ حاصل تھا اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں میں بڑے پیمانے پر ہندو موجود تھے۔ مغربی مورخین لکھ رہے ہیں کہ اورنگ زیب نے اپنی جیب خاص سے بعض مندر تعمیر کرائے۔ لیکن جیسے ہی ہندوستان مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر ہندو قیادت کے ہاتھ میں آیا اس نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ ہندوئوں نے شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اسے پس منظر میں دھکیلنا شروع کردیا۔ قیام پاکستان کے وقت ہونے والے مسلم کش فسادات میں 10 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ ہندو قیادت نے گزشتہ 72 سال کے دوران ہندوستان میں پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات کرائے ہیں۔ ہندو قیادت نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت کی ہندو قیادت بچے کھچے پاکستان کا بھی تعاقب کررہی ہے۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان برصغیر کے بہترین حکمران تھے۔ اس کے برعکس ہندو مسلمانوں کے لیے بدترین حکمران ثابت ہوئے ہیں۔ بدھسٹوں کے ساتھ مسلمانوں کے کشیدہ تعلقات کی کوئی تاریخ ہی نہیں۔ بدھسٹوں کے دھرم میں چیونٹی کو مارنا بھی گناہ ہے۔ مگر بدھسٹوں نے میانمر اور سری لنکا میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے۔ جہاں تک مغربی ممالک کا تعلق ہے تو وہ بھی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلم خواتین کے پردے پر پابندی لگائی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کی راہیں مسدود کی جارہی ہیں۔ فرانس مغرب کا سب سے لبرل ملک ہے مگر وہاں مسلمانوں میں بیروزگاری کی شرح بیروزگاری کی قومی شرح سے دوگنی ہے۔ یورپ کے دوسرے ممالک اور امریکا میں مسلمانوں کو مشتبہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی ڈاک سنسر کی جاتی ہے، ان کے ٹیلی فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کا جرم کل بھی صرف ایک تھا اور آج بھی صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ مسلمان لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کو ان کے مذہب اس دور کرکے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتی ہیں اور مسلمان کسی قیمت پر اپنا مذہب ترک کرنا نہیں چاہتے۔ ان کے لیے کل بھی اسلام ہی میں نجات تھی اور آج بھی اسلام ہی ان کا نجات دہندہ ہے۔ وہ کل بھی اسلام ہی کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور آج بھی اسلام ہی کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بات نہ مغرب سے ہضم ہو رہی ہے، نہ یہودیوں سے، نہ ہندوئوں سے، نہ بدھسٹوں سے۔