امریکا اور بھارت چین کی ترقی کو اپنے لیے دھمکی سمجھتے ہیں

210

کراچی (رپورٹ :قا ضی جاوید)امریکا اور بھارت چین کی ترقی کو اپنے لیے دھمکی سمجھتے ہیں‘ون بیلٹ ون روڈ 60سے زاید ممالک میں شروع ہو چکا ہے لیکن اصل ہدف پاکستان اور چین ہیں‘ بھارت نے تبت کی ایک جلاوطن حکومت بھی بنا رکھی ہے‘ لداخ اور فنگر 8کے سر حدی علا قوں میں بیجنگ کی بالا دستی بر قرار ہے۔ان خیالات کا اظہار سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے امورِ خارجہ اور پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید ،کر نل سرفراز حسین عابدی، انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی رفاع یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ارشد آفتاب اور ڈاکٹر احمد سلیم نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’ چین بھارت کشیدگی کے محرکات کیا ہیں‘‘؟کر نل سرفراز حسین عابدی نے کہا ہے کہ چین کو خدشہ ہے کہ بھارت اسٹیٹ آف ملا کا کو بند کر دے گا لیکن ایسا ممکن نہیں ہے‘ بھارت نے امریکا کے کہنے پر اگر ایسا کیا تو اس کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا ‘تنظیم کواڈ میں امریکا، بھارت، چاپان، آسٹر یلیا کے علاوہ ساؤ تھ چائنا سی کے چند ممالک بھی شامل ہیں ان میں سے کو ئی بھی امریکا یا بھار ت کا ساتھ دیتے ہوئے چین کی مخالفت نہیںکرے گا‘ بھارت اور امریکا ون بیلٹ اینڈ ون روڈ کے مخالف ہیں لیکن اس منصوبے سے بھارت بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے‘ امریکا چین کی ترقی نہیں دیکھ سکتا ہے اس لیے اس نے بھارت کو چین کے سامنے کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے تبت کی ایک جلاوطن حکومت بھی بنا رکھی ہے جس کے سربراہ دلائی لاما ہیں جس کا چین مخالف ہے‘ تائیوان، جنوبی بحیرہ چین، اور ہانگ کانگ میں چین اور بھارت ایک دوسرے کے سامنے ہیں‘ لداخ اور فنگر 8 کے سر حدی علا قوں میں بھی چین کی بالادستی برقرار ہے اور بھارت کو شکست کا سامنا ہے‘ کیلاش کی پہا ڑیوں اور اُرونچل پردیش میں بھی چین اپنا ایک گاؤں بنا چکا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے‘ اگر چین نے اس جا نب کوئی حملہ کیا تو بھارت کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھا رت کو آر ایس ایس کے غنڈوں نے جہنم بنا دیا ہے اور اب ایسا محسوس ہو رہا ہے‘ بھارت مزید بربادی کی جانب سفر کر رہا ہے‘ پاکستان کی اپنی جغرافیائی اہمیت اس کو دوسرے ممالک سے ممتاز کرتی ہے‘ امریکا، برطانیہ، روس اور چین سمیت دیگر بڑے بڑے اور اہم ممالک کی نظریں ہمہ وقت پاکستان پر رہتی ہیں‘ ان تمام ممالک نے پاکستان کے متعلق خصوصی ڈیسک بنائی ہوئی ہیں جو اہم معلومات و خبریں اپنے حکام تک پہنچاتی ہیں‘ افغانستان میں جس طرح پہلے روس اور اب امریکا اپنا سب کچھ لٹا کر جنگ جیتنے کی لاحاصل کوشش کر رہا ہے‘ وہ پاکستان کی اہمیت کو مزید دوچند کر دیتا ہے‘ اس وجہ سے پاکستان کو ماضی قریب و بعید میں بڑی قیمت چکانی پڑی ہے‘ چین جیسی بڑی ریاست کی ہمسائیگی میں موجود ہونے اور اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہونے کی بنا پر پاکستان چین مخالف لابی کی آنکھوں میں کھٹکنے والا ملک ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ سالِ گزشتہ چین کے خلاف بھارت کی دانستہ اشتعال انگیزی دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا اصل محرک ہے اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) قومی سلامتی کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کر تی ہے‘ چین امن پسند ملک ہے جو کبھی کسی ہمسایہ کے خلاف جارحیت کا مرتکب نہیں ہوا لیکن بھارت ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دراندازی کی روِش پر گامزن ہے جس کی وجہ سے چین کو بھی کارروائی کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے بھارتی قیادت کو متنبہ کیا کہ وہ ’’سرخ لکیریں’’ عبور نہ کرے بصورت دیگر جون 2020ء کی ہی طرح انہیں ایک اور نیا سبق ملے گا جب بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی فوجی تصادم کو بھڑکایا تھا۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ تائیوان ، جنوبی بحیرہ چین، ہانگ کانگ ، تبت اور سنکیانگ کا مسئلہ ہو یا پھر چین کے خلاف بھارت کی مسلسل سرحدی جارحیت ہم چینی بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر ارشد آفتاب نے کہا کہ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ نے چین اور پاکستان کو امریکا اور بھارت کے سامنے نمایا ںدشمن بنا دیا ہے‘ یہ دونوں چین کی ترقی کو اپنے لیے ایک دھمکی تصور کر رہے ہیں اور یہی سب سے بڑی خرابی ہے‘ 1962ء سے چین اور بھارت کے درمیان اختلافات ہیں لیکن اب سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کو بھارت نے ایک مسئلہ بنا دیا ہے اور یہ سب امریکا کے کہنے پر بھارت کر رہا ہے اور یہی غلط ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ 2018ء اور 2019ء کے دوران ایسا لگتا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت خوشگوار ہوتے جا رہے ہیں‘ چین اور امریکا کے درمیان موجودہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے کہا جانے لگا ہے کہ اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات کا خراب ترین دور گزر رہا ہے‘ وہ سارے موضوعات جن پر اب تک یہ دونوں ممالک بات کرتے آئے ہیں‘ اب ان پر اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں‘ ون بیلٹ ون روڈ 60 سے زاید ممالک میں شروع ہو چکا ہے لیکن ہدف پاکستان اور چین ہے‘ بھارت اور پاکستان شاید دنیا میں وہ ملک ہیں جو زمانہ امن میں بھی حالت جنگ کی کیفیت میں رہتے ہیں‘ چین دنیا کی بڑی اور اُبھرتی ہوئی معیشت کا حامل ملک ہے‘ یہ واحد ملک ہے جسے وقتاً فوقتاً اپنی ترقی پر روک لگانا پڑتی ہے تاکہ معاشرتی ڈھانچہ تباہ نہ ہوجائے۔ ڈاکٹر احمد سلیم نے بتایا کہ یہ جنگ بھارت کی ہے اس نے شروع کی ہے1962ء میں بھی بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث دونوں ملکوں کی جنگ ہوئی تھی پھر چین کی افواج بھارتی علاقے میں داخل ہو گئی تھیں۔ ’’ ڈوکلام‘‘ کے علاقے سے متعلق وزارت خارجہ نیمطالبہ کیا تھا کہ بھارت وہاں سے اپنی افواج فوری طور پر واپس بلا لے‘ جون 2017ء میں چین نے اس علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر شروع کی تو بھوٹان نے اس کی مخالفت کی۔ قبل اس کے کہ چین اور بھوٹان سفارتی ذرائع سے اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرتے‘ بھارت نے بھوٹان کی مدد کرنے کے بہانے یہ کہتے ہوئے اپنی فوج اس علاقے میں داخل کر دی کہ چین نے اس علاقے ڈوکلام میں چند کلومیٹر لمبی روڈ بنانے کی کوشش کرتے ہو ئے بھوٹان کے ساتھ امن معاہدوں کو توڑ دیا ہے۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی (Xinhau) نے اپریل2020ء میں بھارت کو خبردار کیا تھا‘ بھارت کو اپنی افواج اس علاقے سے نکال لینی چاہئیں بصورت دیگر یہ جھڑپ کسی بڑی جنگ کو جنم دے سکتی ہے۔ ویسے بھی اگر بھارت کا بھوٹان کے ساتھ کسی قسم کا ’’دوستی کا معاہدہ‘‘ ہے بھی تو اس کا اطلاق ان علاقوں پر ہوتا ہے جو بھوٹان کا طے شدہ حصہ ہیں نہ کہ ان علاقوں پر جو متنازع ہیں۔ ایک چینی تھنک ٹینک نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر بھارتی فوج بھوٹان کی مدد کرنے کے بہانے سے اس متنازع علاقے میں داخل ہو سکتی ہے تو اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے چین کی افواج پاکستان کی مدد کرنے کے لیے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بھی داخل ہو سکتی ہیں‘ گزشتہ دہائیوں میں چین کی سفارت کاری کے انداز کا جائزہ لیں تو بھارت سمیت تمام ممالک کو چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی خبروں اور رپورٹوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔